نئی دہلی/۱۸ مارچ
سی بی آئی نے جے اینڈ کے بینک کے سابق چیئرمین مشتاق احمد شیخ اور۱۸ دیگر کے خلاف ’آر ای آئی ایگرو‘ کو واجب الادا قرضوں کی وجہ سے بینک کو ۸۰۰ کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔
حکام نے کہا کہ قرضہ رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، بغیر کسی ٹھوس سیکورٹی اور جعلی دستاویزات پر جاری کیے گئے تھے۔
حکام کے مطابق بینک کے افسران کے علاوہ، مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے آر ای آئی ایگرو کے چیئرمین سنجے جھنجھن والا اور نائب صدر اور منیجنگ ڈائریکٹر سندیپ جھنجھن والا کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا ہے۔
اس معاملے کی پہلے جموں و کشمیر کی اینٹی کرپشن برانچ نے تحقیقات کی تھی اور اس نے اپنی ابتدائی تفتیش کے دوران پایا تھا کہ۲۰۱۱ اور۲۰۱۳ کے درمیان جعلی دستاویزات کی بنیاد پر اور رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گروپ کو ۸۰۰ کروڑ روپے کے قرضے منظور کیے گئے تھے۔
حکام نے کہا کہ اس سے بینک کو ۸۰۰ روپے کا نقصان ہوا۔
بینک کی ممبئی میں واقع مہیم برانچ نے۵۵۰ کروڑ روپے کے قرضے منظور کیے تھے جبکہ دہلی میں وسنت وہار برانچ نے سپلائر بل میں چھوٹ کی سہولت اور ٹیک اوور کے خلاف ان کے حق میں ۱۳۹ کروڑ روپے کی منظوری دی تھی۔
کمپنی نے بینک کی مہیم اور وسنت وہار شاخوں سے بینک کے قرض کی منظوری کے آرڈر میں بیان کردہ شرائط و ضوابط کے مطابق کسانوں کو ادائیگی کرنے کیلئے پیشگی منظوری کے لیے رابطہ کیا تھا۔
کسانوں کو کمپنی کو دھان فراہم کرنا تھا، اس کے نتیجے میں کمپنی کو پیداوار (دھان) بیچنا پڑتی تھی اور اس کی ترسیلات کو کمپنی کی طرف سے موصول ہونے والے ایڈوانس کے بدلے قسطوں کے طور پر بینک میں جمع کرانا پڑتا تھا۔ کیس میں ایف آئی آر بینک حکام اور کمپنی کو معلوم تھا کہ قرض کی رقم کسانوں میں دھان کی پیداوار کے لیے تقسیم کی جانی تھی۔
لیکن کمپنی کی جانب سے بینک حکام کی ملی بھگت سے اس کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کی گئی جنہوں نے مشترکہ ذمہ داریوں کے گروپ (جے ایل جیز) کے ذریعے قرض کی تقسیم کی اجازت دی، حالانکہ کمپنی پہلے ہی دھان وصول کر چکی تھی اور ایسے حالات میں قرض کی تقسیم کا حقدار نہیں تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن بیورو کی ابتدائی انکوائری کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ ان کیسز میں بینک کی جانب سے کوئی ٹھوس سکیورٹی نہیں لی گئی۔’’یہ قرضے اور ایڈوانس جے اینڈ کے بینک کی شاخ مہیم، ممبئی اور وسنت وہار، نئی دہلی کے عہدیداروں نے اس وقت کے چیئرمین، جے اینڈ کے بینک، مشتاق احمد شیخ کی ملی بھگت سے اور ان کی سرپرستی میں ایک ہی سازش کے تحت منظور اور تقسیم کیے تھے‘‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ بند اور پہلے سے ڈیزائن شدہ طریقے سے بینک کے سرکاری ملازمین کے طور پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، صرف کمپنی کے پروموٹرز‘ سنجے جھنجھن والا اور سندیپ جھنجھن والا کے مفاد کو پورا کرنے کیلئے۔