جموں//
مرکزی وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان نے آج جموں کے آر ایس پورہ علاقے کے دورے کے دوران ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرونے۱۹۶۰میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرکے ملک سے بڑی ناانصافی کی تھی، جس کے نتیجے میں ہندوستان کے حصے کے۸۰فیصد دریاؤں کا پانی پاکستان کو دے دیا گیا۔
چوہان نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت چھ اہم دریاؤں میں سے تین سندھ، چناب اور جہلم مکمل طور پر پاکستان کے سپرد کر دیے گئے ، جبکہ ہندوستان کو صرف ستلج، بیاس اور راوی کے محدود پانی پر گزارا کرنا پڑا، جو زراعت کے لیے ناکافی ہے ، خاص طور پر جموں و کشمیر اور پنجاب جیسے زرعی خطوں میں۔
مرکزی وزیر نے کہا’’یہ معاہدہ پنڈت نہرو کی طرف سے ایک یک طرفہ فیصلہ تھا، جس سے ہندوستان کے کسانوں کے مفادات کو شدید نقصان پہنچا۔ پاکستان نے اس پانی کو نہ صرف اپنی زراعت کے لیے استعمال کیا بلکہ دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے بھی اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا‘‘۔
چوہان نے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس معاہدے کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے ۔
مرکزی وزیر کے مطابق وزیر اعظم مودی نے قوم کے مفاد میں اندس واٹر ٹریٹی کو معطل کر کے وہ کام کیا ہے جو برسوں پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اب ہمیں اپنے پانی کے استعمال پر مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ ہمارا آئینی، جغرافیائی اور قدرتی حق ہے ۔
چوہان نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اپنی آبی خودمختاری کو بحال کرے ، اور ایسی پالیسی بنائے جس سے ہمارے کسانوں کو درکار پانی مل سکے ، خاص طور پر ان سرحدی علاقوں میں جہاں پانی کی قلت زراعت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے ۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پانی کی قلت نہ صرف زراعت بلکہ اندرونی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے ، کیونکہ پاکستان اکثر پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے ۔
واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدہ ۱۹ستمبر۱۹۶۰کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا ہندوستان کو اور تین مغربی دریا پاکستان کو دیے گئے ۔
اس دوران مرکزی وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان نے آج جموں کا دورہ کرتے ہوئے سرحدی علاقوں میں بسنے والے کسانوں کو ’قوم کی دوسری دفاعی لائن‘ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ سرحد کے قریب خطرناک حالات میں کھیتی باڑی کرنا ایک بڑا چیلنج ہے ، اور پورا ملک ان محنت کش باشندوں کے کردار کو تسلیم کرتا ہے ۔
چوہان نے آر ایس پورہ کے سرحدی گاؤں میں کسانوں اور مقامی لوگوں سے ملاقات کے دوران کہا’’سرحدی باشندے صرف زمین کاشت نہیں کرتے بلکہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ملک کی سلامتی میں حصہ دار بنتے ہیں۔ بارڈر پار سے کی جانے والی فائرنگ اور دیگر خطرات کے باوجود ان کا کھیتی سے وابستہ رہنا ایک قومی خدمت ہے ‘‘۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت ہند اور جموں و کشمیر انتظامیہ مشترکہ طور پر ایسے علاقوں میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہی ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی، بہتر بیج، کھاد، سبسڈی اور بلاسٹ پروف زرعی ڈھانچے کی فراہمی کو ترجیح دی جائے گی تاکہ وہ محفوظ ماحول میں کھیتی باڑی جاری رکھ سکیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دشمن کی گولہ باری کے سبب کھیتوں اور فصلوں کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے خصوصی مالی امدادی اسکیموں پر بھی کام ہو رہا ہے ۔
وزیر زراعت کے دورے کے دوران مقامی کسانوں اور پنچایتی نمائندوں نے اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کیا، جن میں زیر زمین بنکروں کی قلت، آبی وسائل کی کمی، مارکیٹ تک رسائی اور فصلوں کی بروقت انشورنس شامل تھی۔شیو راج سنگھ چوہان نے ان تمام مسائل کا جائزہ لینے اور متعلقہ وزارتوں کو فوری کارروائی کی ہدایت دینے کا وعدہ کیا۔