سرینگر//(ندائے مشرق ڈیسک)
ہندوستان کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے ہفتے کو کہا کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے ساتھ تنازعے کے پہلے دن فضائی محاذ پر نقصان اٹھانے کے بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور فیصلہ کن برتری حاصل کی، جس کے بعد تین دن بعد پڑوسی ممالک نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔
جموں و کشمیر کے پہلگام میں ۲۲؍ اپریل کے دہشت گردانہ حملے ‘ جس میں۲۶؍ افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر سیاح تھے‘نے دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں کی سب سے بڑی جھڑپوں کو جنم دیا۔
۷مئی کو بھارتی جنگی طیاروں نے سرحد پار دہشت گرد اڈوں پر حملہ کیا جبکہ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ ابتدائی جھڑپوں میں اس نے بھارتی طیاروں کو گرایاکے بعد۱۰ مئی کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔
جنرل انیل چوہان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت کو فضائی محاذ پر ابتدائی نقصانات اٹھانے پڑے، لیکن انہوں نے تفصیلات دینے سے انکار کر دیا۔ان کاکہنا تھا’’اہم سوال یہ ہے کہ یہ نقصانات کیوں ہوئے، اور ہم نے اس کے بعد کیا اقدامات کیے‘‘۔انہوں نے سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سیکیورٹی فورم کے موقع پر رائٹرز کو بتایا، جس میں انہوں نے پاکستان کے طیارے گرانے کے دعوے کی طرف اشارہ کیا۔
ان کاکہنا تھا’’چنانچہ ہم نے اپنی حکمت عملی کو درست کیا اور پھر ۷‘۸ ؍اور۱۰ مئی کو بڑی تعداد میں پاکستان کے گہرے علاقوں میں فضائی اڈوں پر حملے کیے، ان کے تمام فضائی دفاعی نظام کو بے اثر کرتے ہوئے دقیق نشانے بنائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ بھارتی فضائیہ نے ’’۱۰ مئی کو تمام قسم کے طیاروں اور ہتھیاروں کے ساتھ آپریشن کیا‘‘۔
بھارت نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس کے میزائل اور ڈرونز نے اس روز پاکستان کے کم از کم آٹھ فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا تھا، جن میں دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ایک اڈہ بھی شامل تھا۔
بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ایئر آپریشنز ایئر مارشل اے کے بھارتی نے مہینے کے شروع میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا ’’جنگ میں نقصانات ایک عام بات ہے‘‘ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے کچھ پاکستانی جنگی طیارے گرائے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، کچھ حملے پاکستان کے جوہری تنصیبات کے قریب موجود فوجی اڈوں پر کیے گئے تھے، لیکن جوہری تنصیبات خود نشانہ نہیں بنائی گئی تھیں۔
جنرل چوہان نے کہا’’زیادہ تر حملے انتہائی درست نشانے پر کیے گئے تھے، کچھ تو ایک میٹر کے اندر تک درست تھے، جو ہمارے منتخب کردہ نشانوں پر ہوئے‘‘۔
جنرل چوہان اور پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل صاحرشہاد مرزا دونوں نے کہا ہے کہ تنازعے کے دوران کسی بھی وقت جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ نہیں تھا۔
جنرل چوہان نے کہا’’میرے خیال میں جوہری حد پار کرنے سے پہلے بہت سی بات چیت ہوتی ہے، میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ روایتی جنگ کے لیے بہت گنجائش موجود ہے اور یہ نیا معمول بن جائے گا‘‘۔
سی ڈی ایس نے مزید کہا’’میرا ذاتی خیال ہے کہ تنازعے کے وقت سب سے زیادہ معقول لوگ یونیفارم میں ہوتے ہیں۔ اس آپریشن کے دوران، میں نے دیکھا کہ دونوں اطراف نے اپنے خیالات اور اقدامات میں بہت معقولیت کا مظاہرہ کیا۔ تو پھر ہم کیوں یہ فرض کریں کہ جوہری معاملے میں کوئی غیر معقول رویہ اپنائے گا؟‘‘
جنرل چوہان نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ پاکستان چین کا قریبی اتحادی ہے، جو بھارت کے شمالی اور مشرقی سرحدوں پر واقع ہے، لیکن تنازعے کے دوران بیجنگ کی طرف سے کسی بھی قسم کی عملی مدد کے کوئی آثار نہیں تھے۔ان کاکہنا تھا’’جب یہ واقعات (۲۲؍ اپریل سے) پیش آ رہے تھے، ہمیں اپنی شمالی سرحدوں کے آپریشنل یا ٹیکٹیکل علاقوں میں کوئی غیر معمولی سرگرمی نظر نہیں آئی، اور حالات عام طور پر ٹھیک تھے‘‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین نے تنازعے کے دوران پاکستان کو سیٹلائٹ امیجری یا دیگر ریئل ٹائم معلومات فراہم کی ہوں گی، تو جنرل چوہان نے کہا کہ ایسی امیجری تجارتی طور پر دستیاب ہے اور یہ چین سمیت دیگر ذرائع سے بھی حاصل کی جا سکتی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ دشمنی ختم ہو چکی ہے، لیکن بھارتی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ’’پاکستان سے ہونے والے کسی بھی دہشت گردانہ حملے کا درست اور فیصلہ کن جواب دے گی۔لہٰذا مسلح افواج کے لیے یہ اپنی ایک الگ ڈائنامک رکھتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔‘‘