سرینگر//
کشمیر میں سیاسی جماعتوں نے بدھ کے روز وقف ایکٹ میں کی گئی ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذہبی معاملات میں مداخلت اور مسلمانوں کو بے اختیار بنانے کی کوشش ہے۔
اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بدھ کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل ۲۰۲۵ پیش کیا۔
اس بل کا مقصد حکومت کے بقول وقف املاک کے کام کاج کو بہتر بنانا، پیچیدگیوں کو دور کرنا، شفافیت کو یقینی بنانا اور ٹکنالوجی پر مبنی مینجمنٹ متعارف کروانا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسے’غیر آئینی‘اور مسلم برادری کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا’’ یہ بل مسلمانوں کو بے اختیار بنانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ مجھے بی جے پی سے کوئی امید نہیں ہے کیونکہ ہم پچھلے دس گیارہ سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مساجد کو مسمار کیا جاتا ہے۔ لیکن ہندو بھائیوں کو آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ یہ گاندھی کا ملک ہے ، اسے آئین کے مطابق چلنا چاہئے‘‘۔
محبوبہ نے کہا کہ سیکولر قوتوں کو ملک کو ایک اور میانمار بننے سے روکنے کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔
ان کا کہنا تھا’’یہ گاندھی جی کا ملک ہے یہ آئین کے مطابق چلنا چاہئے بی جے پی کے ایجنڈے کے تحت نہیں چلنا چاہئے ‘‘۔
پی ڈی پی صدر نے بی جے پی پر ملک کو توڑنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا’’بی جے پی ملک کو توڑنا چاہتی ہے ، ملک میں آخر ان حکومت بھی نہیں رہے گی لہذا لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے اور اس بل کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے ‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’ہندوستان کو اندرونی تقسیم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ میانمار میں دیکھا گیا تھا‘‘۔ان کا کہنا ہے’’جو وقف کو قبضے میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے میں سمجھتی ہوں کہ سب کو آگے آنا چاہئے ۔‘‘
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے بھی وقف بل میں ترمیم کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ وقف ان جائیدادوں کا نگہبان ہے جو اجتماعی طور پر مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔
لون نے کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے مجوزہ ترمیم ہمارے عقیدے میں کھلم کھلا مداخلت ہے جس کا مقصد حق دار محافظوں کو ان کے اختیارات سے محروم کرنا ہے۔ لون نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ دائیں بازو کی ایک اور دراندازی۔
پی سی صدر نے زور دے کر کہا کہ پارلیمنٹ کا یہ اقدام مسلمانوں کی مذہبی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے مجوزہ ترمیم ہمارے عقیدے میں کھلم کھلا مداخلت ہے جس کا مقصد حق دار محافظوں کو ان کے اختیارات سے محروم کرنا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کی پارٹی ان ترامیم کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ صرف ایک مذہب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ان کاکنا تھا’’میں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہر مذہب کے اپنے ادارے ہوتے ہیں اور ہر مذہب کا ایک خیراتی ونگ ہوتا ہے اور ہمارے لئے یہ وقف ہے‘‘۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا’’وقف کو اس طرح نشانہ بنانا بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ اب یہ پارلیمنٹ پر منحصر ہے۔ ہم اس بل کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ہمارے ارکان پارلیمنٹ اس کی سخت مخالفت کریں گے‘‘۔
تاہم بی جے پی لیڈر درخشاں اندرابی نے ان ترامیم کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف کے پاس اتنی جائیدادیں کیسے ہیں لیکن پھر بھی مسلم بھائی غریب تھے؟
اندرانی نے کہا کہ وقف کے پاس ہزاروں کنال زمین ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت بے گھر اور بے زمین ہے۔ حکومت، وزیر اعظم، ان مسائل کے بارے میں سوچ رہے ہیں تاکہ مسلم کمیونٹی غریب نہ رہے اور اسے تمام سہولیات ملیں۔
جموں و کشمیر وقف بورڈ کے رکن اور سینئر صحافی سہیل کاظمی نے بھی اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی مذہبی برادری ہے، اور حکومت کو کسی بھی قسم کی ترمیم سے قبل مسلم قیادت اور متعلقہ فریقین سے مشاورت کرنی چاہیے۔‘‘
کاظمی نے مزید کہا’’اگر حکومت وقف بل متعارف کروانا چاہتی ہے تو اسے مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ آمریت کی طرز پر اسے نافذ کرنا ملک اور حکومت کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔‘‘
جموں کے معروف عالم دین اور صدر تنظیم ائمہ مساجد، جموں، مولانا طارق قاری نے مجوزہ وقف ترمیمی بل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’حکومت کی جانب سے وقف قوانین میں تبدیلیاں وقف املاک کی حرمت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں‘‘۔
مولانا قاری نے دعویٰ کیا ’’حکومت کے اس ترمیمی بل کا مقصد وقف جائیدادوں کو سرکاری املاک میں تبدیل کرنا ہے، جو کہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں‘‘۔
مولاناقاری نے خبردار کیا کہ ’’اس اقدام سے وقف املاک کے غلط استعمال اور ممکنہ کرپشن کے دروازے کھل سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے وقف ترمیمی بل کو ’مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت‘قرار دیا۔