کراچی//
اگر آپ سے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے 3 عظیم ترین فاسٹ بولرز کے نام پوچھے جائیں تو یقینی طور پر ان میں سے ایک وقار یونس بھی ہوں گے، ان کی خطرناک یارکرز نے بیٹرز کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا،800 سے کچھ کم انٹرنیشنل وکٹیں لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
وقار یونس نے ریٹائرمنٹ کے بعد کوچنگ اور کمنٹری سمیت مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں، پی سی بی کے ساتھ مختلف حیثیتوں سے وہ وابستہ رہے لیکن سفر کا اختتام خوشگوار نہ رہا، کھلاڑیوں کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آئے، نتائج جیسے بھی رہے ان کی نیت صاف تھی، ذاتی انا کو کبھی ترجیح نہ دی ورنہ اپنے سے جونیئر مصباح الحق کا نائب کوچ بننا کبھی قبول نہیں کرتے۔
جب کبھی انھیں بورڈ نے آواز دی وہ آسٹریلیا سے پاکستان چلے آئے،اس بار بھی یہی ہوا، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی اپنے طور پر ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے بہت کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، البتہ وقت کی کمی مسئلہ ہے،وزیر داخلہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت مصروف رہتے ہیں،اس وجہ سے تنقید بھی ہوئی، پی سی بی کا مسئلہ کرکٹرز سے دوری ہے، وکیل صاحب ترقی کرتے کرتے سی او او بن گئے، واہلہ بھی ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ کی پوسٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہے، چیئرمین تو عموما نان کرکٹر ہی ہوتا ہے۔
حالیہ عرصے میں رمیز راجہ کو اتنی بڑی پوسٹ سونپنے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا تھا، انھوں نے اپنا نام زندہ رکھنے اور کریڈٹ لینے کیلیے پاکستان جونیئر لیگ کرا دی جس پر اربوں روپے پھونک دیے گئے، محسن نقوی سے مجھ سمیت بہت سے صحافیوں و دیگر شخصیات نے یہ درخواست کی تھی کہ وہ کسی کرکٹر کو ساتھ لائیں،اب انھوں نے ایسا کر لیا اور کرکٹنگ معاملات وقار یونس کو سونپ دیے ہیں۔