نئی دہلی///
آئی پی ایل 2025 اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ رائل چیلنجرس بنگلورو نے پنجاب کنگس کو فائنل میں شکست دے کر خطاب اپنے نام کر لیا ہے۔ خطاب جیتنے والی آر سی بی کو 20 کروڑ روپے کی انعامی رقم ملی، جبکہ 6 رن سے خطاب گنوانے والی پنجاب ٹیم کو 13 کروڑ روپے ملے۔ تیسرے اور چوتھے مقام پر رہنے والی ممبئی انڈینس اور گجرات ٹائٹنس کی ٹیم کو بھی خوب پیسے ملے ہیں۔ ایسے میں کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پلے آف سے دور رہنے والی بقیہ ٹیموں کو پیسہ نہیں ملا؟ جواب ہے ’ملا، اور بہت زیادہ پیسہ ملا‘۔ اب پوچھیں گے کہ ’کیسے؟‘ تو آئیے، یہاں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آئی پی ایل کی ٹیمیں خطاب جیتے بغیر بھی کیسے کمائی کرتی ہیں۔
بی سی سی آئی نے 27-2023 سیزن کے لیے میڈیا رائٹس (ٹی وی اور ڈیجیٹل رائٹس) 48390 کروڑ میں فروخت کیے تھے۔ آئی پی ایل ٹیم کے مالکان سرمایہ کار بھی ہوتے ہیں، کیونکہ جب وہ ٹیم اور کھلاڑی خریدتے ہیں تو اسپانسرز اور مرچنڈائز کی فروخت سے لیکر اسٹیڈیم میں کی جانے والی برانڈنگ سے بھی ٹیمیں کماتی ہیں۔ ’اکنامک ٹائمز‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق اس رقم کا 50-40 فیصد انڈین پریمیئر لیگ کی تمام 10 فرنچائزز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2023 میں ہر ایک ٹیم کو اوسطاً 467 کروڑ روپے ملے تھے۔
آئی پی ایل ٹیم کے مالکان اسپانسرشپ ڈیل سے بھی بہت سارا پیسہ کماتے ہیں۔ ٹیم کی جرسی اور کِٹس پر جن کمپنیوں کے لوگو شائع ہوتے ہیں، ان کے لیے آئی پی ایل ٹیموں کو کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سی ایس کے اور آر سی بی جیسی معروف ٹیموں کی اسپانسرز سے ہونے والی آمدنی 100 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی کوئی ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہی ہوتی ہے تب ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں فرنچائز کا 80 فیصد حصہ ہوتا ہے۔
چنئی سپر کنگس، رائل چیلنجرس بنگلورو اور ممبئی انڈینس جیسی معروف ٹیمیں مرچنڈائز کی فروخت سے بہت زیادہ کمائی کرتی ہیں۔ جیسے کوئی مداح ٹیم کی جرسی، ٹوپی یا دیگر چیزیں خریدتا ہے تو اس سے ہونے والی آمدنی فرنچائز کی ہوتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2025 میں مرچنڈائز کی فروخت 30 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اس سے ٹیموں کی برانڈ ویلیو میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔