سیاسی آواگون یا آیارام گیا رام ایسی اصطلاحات کا استعمال سیاست سے وابستہ لوگوں کا معمول ہے، وہ سیاسی کوٹ کی تبدیلی کو نہ گناہ تصور کرتے ہیں اور نہ ہی گالی یا معیوب، بلکہ اس آیا رام گیا رام کا براہ راست تعلق حصول اقتدار، حصول مراعات، سکیورٹی اور دبدبہ سے ہے۔ عوام کی خدمت سے نہیں اور نہ ہی اس آنے جانے کا تعلق کسی اخلاقی اقدار کی پیروی سے ہے۔
سیاست سے وابستہ لوگوں کا کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی یا وہاں سے نکل کر کسی اور پارٹی میں شمولیت ان کی اپنی پسند اور چاہت کے ساتھ ساتھ اپنا مخصوص حق ہے لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو کھٹکتی ہیں اور سوال بن کر زبان پہ آجاتی ہیں ۔ کشمیر کے سیاسی لینڈ سکیپ کے تعلق سے بات کریں تو سیاسی عہدیداروں اور سیاسی کارکنوں کا ایک پارٹی سے وابستگی اور اس پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے کسی دوسری پارٹی میں شمولیت یوں تو حیرانی کا باعث نہیں البتہ پارٹی سے نکلتے وقت اور دوسری پارٹی کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے اپنی سابق پارٹی پرمختلف قسم کی لن ترانی اور رکیک جملہ بازی واقعی کھٹکتی ہے۔
مثال کے طور پر کسی عہدیدار کا سالہاسال تک پارٹی سے وابستہ رہنے کے بعد علیحدگی اختیار کرتے وقت اُس پارٹی کے بارے میں یہ فتویٰ صادر کرنا کہ وہ جھوٹ بولتی رہی ہے، عوام کو دھوکہ دے رہی ہے، لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیل رہی ہے پر اعتبار کیسے کیاجاسکتا ہے کہ واقعی شخص مذکورہ سچ بو ل رہا ہے جبکہ وہ خود سالہاسال تک اُس پارٹی سے وابستہ رہ کر لوگوں کو یہ یقین دلاتا رہا کہ پارٹی عوام پرور ہے اور پارٹی لوگوں کی عزت وآبرو بقاء، اور سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے کی سمت میں اپنا کردار بھی اداکررہی ہے اور جدوجہد بھی کررہی ہے۔علیحدگی اختیار کرتے وقت اور اپنی علیحدگی کو جواز عطاکرنے کیلئے پارٹی کے اندر اچانک کیڑے تیرتے کیوں نظرآئے، پارٹی پر جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کرنے کا طعنہ اگر واقعی سچ پر مبنی ہے تو کیا وہ خود پارٹی کا سالہاسال تک حصہ بنے رہ کر خودا س جھوٹ کا حصہ نہیں تھا یاخود جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کرنے کا مجرم نہیں بنا پھر تا رہا!
کئی ایک مثالیں ہیں جنہیں پیش کیاجاسکتاہے ۔ یہ مثالیں چھوٹے قد کے سیاسی ورکروں اور سیاسی عہدیداروں کے حوالہ سے سامنے آتی رہی ہیں اور آنے والے دنوں ،ہفتوں ، مہینوں میں آتی رہیگی لیکن جو لوگ خود کو بڑے سیاستدان تصور کررہے ہیں ان کی بیان بازی بھی کچھ کم نہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرکے کیا یہ سیاستدان عوام کو دھوکہ میں نہیں رکھ رہے ہیں، انہیں گمراہ نہیں کررہے ہیں اور مختلف حساس نوعیت کے معاملات پر جھوٹ پر جھوٹ بول کرکیا لوگوں کے جذبات اور احساسات کے ساتھ دانستہ کھلواڑ کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں۔
آئین کی کالعدم دفعات کے بارے میں گذرے تین برس کے دوران وہ کون سیاسی پارٹی ہے یا سیاسی لیڈر ہے جس نے گمراہ کن دعویٰ نہیں کئے، جھوٹ نہیں بولا، لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کشمیراور جموں کیلئے صرف دفعہ۳۷۰؍ ہی موت وحیات کا اشو بن چکا ہے کہ اس کا حوالہ دیئے بغیر کوئی سیاست نہیں کی جاسکتی ہے۔ کوئی اس کے خاتمہ پر صدمہ اور دُکھ کا اظہار کررہا ہے تو اس کا سیاسی مخالف اُس صدمہ کیلئے اسے طعنہ دے کر دفعہ ۳۷۰؍کے بارے میں اپنے اختراعی انداز سے کچھ اور ہی دعویٰ کرکے میدان میں کود پڑتا ہے۔کیا سیاسی لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کی یہ آپسی طعنہ زنی کشمیر کے دکھوں، مصائب او رپریشانیوں کی واحد مد اوا ہے؟کیا اس نوعیت کی بیان بازی سے کشمیر قاضی گنڈ سے کھادن یار تک متحدہو کر ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند حرکت کرتا نظرآئیگا، کسی کو کسی کا اے ، بی ، سی ،ڈی ٹیم قرار دینے اور اس حوالہ سے کردارکشی کی مسلسل کوشش کرکے اقتدار کی دیوی اس پر مہربان ہوکر اس کے گلے کا ہار بن جائیگی، کوئی سیاستدان آیا تو اپنے حقیر ذاتی اور پارٹی مفادات کے حصول کیلئے کشمیر ی عوام کو مسلکوں کی بُنیاد پر تقسیم کرنے کا کرداراداکرکے چلا گیا، دوسرا سیاستدان آیا تواس نے کشمیر اور کشمیری عوام کو گائوں اور شہری کی بُنیاد پر تقسیم کرکے حکومتی ایوانوں سے اپنی عیاشیوں کا سامان حاصل کیا، کوئی سیاسی قبیلہ حاوی ہوا تو اُس نے جموں وکشمیر کے الحاق کی شرعی حیثیت کا سوال اُٹھایا ، ایک اور سیاسی قبیلہ آیا تو اس نے قبرستانوں کو آباد کرنے کا راستہ اختیار کرکے ملازمانہ اور ذہنی غلامی کا کرداراداکیا ، آج کی تاریخ میں بھی کشمیر ان حوالوں سے مستثنیٰ نہیں۔
ماضی کی تلخیوں، آپسی کشیدہ تعلقات ، ترک موالات، کردار کشی اور گندی نالیوں کے یہ کیڑے ایسی اصطلاحات کے دور کو قصہ پارینہ سمجھتے ہوئے آج کی تاریخ میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اگر چہ روحانی، جسمانی، فکری او ر مکمل سیاسی ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہیں لیکن کسی نہ کسی تعلق سے آپس میں’دوستی‘ نبھاہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نہ طعنہ زنی کررہے ہیں اور نہ ایک دوسرے کی کردارکشی ! لیکن اس کے برعکس سید الطاف بخاری اور سجا د غنی لون ، نیشنل کانفرنس کو با ت بات پر نشانہ بنارہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر پی ڈی پی کو بھی صلواتیں سنا رہے ہیں۔ جب اقتدار میں اکٹھے تھے تو کوئی پی ڈی پی کی وزارتی کونسل میں بحیثیت وزیر اور بحیثیت وزیر خزانہ تھا اورکوئی خاتون وزیر اعلیٰ کو اپنی بہن قرار دے کر لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ جس دور میں یہ سبھی حضرات بحیثیت وزیر کام کررہے ہیں یہ دور کشمیر کی تاریخ کا سنہرا اور ناقابل فراموش دور کے طور یا دکیاجاتارہے گا۔
کشمیر ۴۷؍ اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے اور تقریباً اتنے ہی لاکھ رائے دہندگان بھی ہیں۔ لیکن ۴۷؍لاکھ رائے دہندگان مسلکوں، علاقوں، محلوں، بلاکوں، فرقوں اور طبقاتی خطوط پر تقسیم ہے، کم وبیش چار اہم پارٹیاں میدان میں ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ سارے ووٹ انہی کے حصے میں تقسیم درتقسیم ہوکرچلے جائیں گے۔ لیکن اگلی حکومت کی تشکیل کا خواب ہر پارٹی دیکھ رہی ہے، لوگوں کو اپنے قول وفعل ، کردار وعمل اور متضاد سیاسی اپروچ کے ساتھ تقسیم در تقسیم کرنے کا ان میں سے کسی کو احساس نہیں بالکل اُسی انداز اور طرزعمل کے ساتھ جس طرزعمل کا مظارہ اسد الدین اویسی ملک بھر کے مسلمانوں کا ہمدرد اور آواز بننے کا دعویٰ لے کر اب ہر الیکشن پراسیس کا حصہ بن کر تباہی مچار رہا ہے۔
بہرحال کردار کشی کا سہارا لے کر اقتدار حاصل نہیں کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی عوام کی صفوں میں اتحاد نام کی کسی شئے کو سرائیت کرائے جانے کا راستہ ہموار کیاجاسکتا ہے ۔ یہ محض ایک طفلانہ اور بدبختانہ سوچ ہے۔