وزیر اعلیٰ ‘عمرعبداللہ نے منگل کو پہلگام میں کابینہ اجلاس اور آج گلمرگ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کا انعقاد کرکے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ کشمیری دہشت گردی اور دہشت گردوں سے خوف زدہ نہیں ہوں گے ‘خو ف زدہ نہیں ہو سکتے ہیں۔
۲۰۰۹ تا ۲۰۱۴ کے ان کے پہلے دور حکومت میں عمرعبداللہ دور دراز علاقوں میں کابینہ اجلاسوں کا انعقاد کیا کرتے تھے ‘ لیکن ان کا مقصد حکمرانی کو دور دراز علاقوں کی دیلیز تک پہنچانا تھا جبکہ پہلگام اور گلمرگ کے اجلاسوں کا واضح مقصد جہاں دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور ساتھ ہی ملک بھر کے لوگوں کو اعتماد دلانا کہ کشمیر محفوظ ہے اور ان کا منتظر بھی ۔
گزشتہ ماہ بائسرن پہلگام میں دہشت گردوں کے حملوں میں ۲۶؍افراد کی ہلاکت اور اس کے بعد کی صورتحال نے کشمیر میں سیاحتی سیزن کو ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ سیاحتی سرگرمیاں کم و بیش نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ہو ٹل خالی ہیں جبکہ سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں ۔
پہلگام حملہ نہ ہوتا تو آج ان مقامات پر سیاحوں کا اس قدر رش ہوتا کہ کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہو تی ۔ لیکن ۲۲؍ اپریل کے حملے نے صورتحال یکسر بدل دی اور آج اس شعبے سے وابستہ افراد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔اس کا یہ مطلب ہے کہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ اگر دہشت گردوں کا نشانہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاحت ‘ یہاں کی ترقی بھی تو وہ اس میں بظاہر کامیاب ہو گئے ہیں ۔
لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر یا ملک اس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ دہشت گردوں کو کامیاب ہونے دیا جائے یا ان میں کامیابی کا احساس بھی پیدا ہو جائے؟جواب ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے‘ کوئی دہشت گردوں کو ان کے مکروہ عزائم اور منصوبوں میں کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا ہے ۔کوئی بھی نہیں ۔
اگر ایسا ہے تو پھر کشمیر کے سیاحتی مقامات ویران کیوں ہیں ‘ ملک کے لوگوں نے ‘ سیاحوں نے کشمیر سے اپنا منہ کیوں پھیر لیا ہے ؟یقینا کسی بھی شخص کیلئے اس کے جان و مال کی حفاظت سب سے اہم ہے اور اگر ہم سیاحوںکو ایک بار پھر کشمیر آتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کااعتماد بحال کرنا ہو گا ‘ انہیں اس بات کا یقین دلانا ہو گا کہ کشمیر دہشت گردوں کیلئے جتنا غیر محفوظ ہے اتنا ہی سیاحوں کیلئے محفوظ بھی ہے ۔
لیکن یہ اعتماد محض باتوں سے بحال نہیں ہو گا ۔ اس کیلئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں اور وزیر اعلیٰ ‘ عمرعبداللہ کی اس تجویز سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں پہلا قدم کشمیر کے لوگوں کو اٹھانا ہو گا ۔ انہیں کشمیر کے صحت افزا مقامات کی سیر پر جانا ہوگا کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ۲۲؍اپریل کے حملے کے بعد مقامی لوگوں نے بھی سیاحتی مقامات پر جانا چھوڑ دیا ہے یا کم کردیا ہے ۔
شاید اسی بات کو محسوس کرتے ہو ئے وزیر اعلیٰ کاکہنا تھا کہ کشمیریوں کو وادی کے سیاحتی مقامات پر آنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک کے دوسرے حصوں کے لوگ دوبارہ یہاں آنے کا کوئی فیصلہ کریں ۔وزیر اعلیٰ کاکہنا تھا کہ انہوںنے وزیر تعلیم سے کہا ہے کہ وہ اسکولوں اور کالجوں کے لیے پکنک کا آغاز کریں تاکہ ہم معمول کی طرف واپس جانے لگیں۔عمرعبداللہ نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں سے سیاحت کے وفود کشمیر میں سیاحت کی بحالی کی صورتحال کو جانچنے آئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ملک کے لوگوں کو کشمیریوں کو۲۲؍اپریل کے حملے کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ کشمیریوں نے یہ حملہ نہیں کیا۔ یہ کشمیریوں کی اجازت یا فائدے کیلئے نہیں کیا گیا۔ لیکن اگرلوگ کشمیریوں کو سزا دیتے ہیں، ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟
یقینا بائیکاٹ نہیں ہو نا چاہئے کیونکہ کشمیر کی سیاحت پر نہ آنے کا مطلب دہشت گردوں کو جیت کا احساس دلانے جیسا ہو گا جو نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے انہیںلگنے لگے گا کہ وہ بندوق کی نوک پر یا معصوم اور نہتے لوگوں کا قتل عام کرکے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔
کشمیر میں سیاحت کی بحالی میں جموں کشمیر کی حکومت کاہی نہیں بلکہ مرکز کا بھی ایک اہم کردار ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ مرکز اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے گا ۔مرکز سیاحوں کی آمد کو وادی میں قیام امن کی ایک واضح علامت کے طور پر دیکھتا اور پیش کرتا آیا ہے اور ظاہر ہے کہ آج جب کشمیر میں سیاح موجود نہیں ہیں تو یہ مرکزی حکومت کیلئے بھی باعث تشویش ہو گا ۔امید یہی کی جانی چاہیے کہ مرکز ی حکومت بھی اس ضمن میں اپنا رول ادا کرتے ہو ئے ملک کے لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کرے گی کہ کشمیر آج بھی اتنا ہی محفوظ ہے جتنا ۲۲؍اپریل سے پہلے تھا ۔
گلمر گ اور پہلگام میںاہم اجلاسوں کا انعقاد ایک خوش آئند قدم ہے لیکن ساتھ ہی پہلگام حملے کے بعد جموں کشمیر کی حکومت نے جن سیاحتی مقامات کو بند کیا تھا ‘ انہیں اب عام لوگوں کیلئے کھول دینا چاہئے کیونکہ اس سے بھی ملک کے سیاحوں میں ایک واضح اور مثبت پیغام جائیگا کہ ۲۲؍ اپریل کے بعد کشمیر اب معمول پر آگیا ہے ۔