آپریشن سندور عالمی رابطہ پر سات جماعتی وفود میں سے پہلے وفد، جس کی قیادت شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ شریکانت ایکناتھ شندے کر رہے ہیں، بدھ، ۲۱ مئی کو متحدہ عرب امارات کے لیے روانہ ہوا۔
سات وفود‘جو۵۹پارلیمانی اراکین، سابق وزراء اور سیاستدانوں پر مشتمل ہیں اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہے ۳۲ ممالک اور یورپی یونین کے صدر دفتر بروسلز کا سفر دورہ گے۔
مرکزی حکومت کاکہنا ہے کہ اس عالمی سفارتی سرگرمی کا مقصد دہشت گردی کے خلاف بھارت کے عزم کو سامنے لانا ہے، جو آپریشن سندور کے تحت حالیہ کامیابیوں کے پس منظر میں ہے ۔
ان وفود کو ۳۲ ممالک میں بھیجنا ان اقدامات کی ایک کڑی ہے‘ جو بھارت نے گزشتہ ماہ ۲۲؍اپریل کو بائسرن پہلگام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ۲۵ سیاحوںسمیت ۲۶؍افراد کی ہلاکت کے بعد اٹھائے گئے ہیں ۔
غیر فوجی اقدامات کے تحت بھارت نے جہاں ۱۹۶۰ سے جاری سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا وہیں ۶؍اور ۷ مئی کی درمیانی شب کو آپریشن سندور کے تحت پاکستان او ر اس کے زیر قبضہ کشمیر میں۹ دہشت گرد ٹھکانوں پر نپی تلی کارروائی کرتے ہوئے کم و بیش ایک سو دہشت گر د اور ان کے حامیوں کو ہلاک کردیا ۔
۱۰مئی کو دونوں ممالک میں ہو ئے سیز فائر کے بعد اب ان وفود کو ۳۲ ممالک بھیجا جا رہا ہے تاکہ زائد از تین دہائیوں سے جاری پاکستان کی درپردہ جنگ اور سرحد پار دہشت گردی سے جہاں ان ممالک کو آگاہ کیا جائے وہیں ملک کے اس عزم اور موقف کو بھی واضح اور غیر مبہم انداز میں پیش کیا جائے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھارت اب مزید کچھ بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ مرکز نے پہلے ہی واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ جنگ کا اعلان تصور کیا جائیگا اسی لئے اس نے آپریشن سندور کو ختم نہیں بلکہ معطل رکھنے کی بات کی ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر دہشت گرد اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے ۔
بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کسی بھی حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ عوامی رائے عامہ کو نظر انداز کرے ۔پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد ملک میں لوگ ایک آواز میں سامنے آئے اور وہ آواز ‘ وہ مطالبہ ۲۶ معصوم لوگوں کی ہلاکت کا بدلہ تھا ۔
۲۰۱۶ کے اوڑی اور پھر ۲۰۱۹ کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے اُس پار سرجیکل اسٹرائیک اور آپریشن بالاکوٹ اس امید کے ساتھ کیا کہ ہمسایہ ملک کی سمجھ میں یہ بات آجائیگی کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے ‘ جس سے اس کے خود کے ہاتھ ہی جل جائیں گے ۔ بد قسمتی سے پاکستان اس بات کو سمجھ نہیں پایا یا اس نے اسے سمجھنا ضروری نہیں سمجھا اور بھارت میں سرحد پار دہشت گردی کی اعانت جاری رکھی ۔پہلگام میں ۲۶ معصوم لوگوں کی ہلاکت کے ساتھ ہی اس نے بھارت کی طرف سے کھینچی گئی سرخ لکیر کو پار کیا ۔
پہلگام حملے کے بعد دینا نے ایک آواز میںاس حملے کی مذمت کی اور بھارت کے شانہ بشانہ کھڑا رہی حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی ان حملوں کی مذمت کی گئی اور پاکستان کو کچھ تیکھے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا جن کا جواب دہ دینے سے قاصر رہا ۔
آپریشن سندور کی کامیابی کے بعد اب یہ ضروری بن گیا تھا کہ دنیا کو بھارت کے موقف سے آگاہ کیا جائے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کی سر زمین کو بھارت کیخلاف دہشت گردانی حملوں کیلئے استعمال کیا گیا اور اس میں ملوث دہشت گردوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔پہلگام حملے سے پہلے ۲۰۰۸ میں ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی بھی یاد تازہ کرائی جائیگی جن کے ناقابل تردید ثبوت پاکستان کو فراہم کئے گئے لیکن اس نے ان حملوں میں ملوث دہشت گرد وں کیخلاف کوئی ٹھوس قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی ۔
ان ممالک کو بتایا جائیگا کہ پاکستان سے نہ صرف بھارت اور اس کے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ کچھ دوسرے ممالک میں بھی ہوئے دہشت گردانہ واقعات کے تانے بانے بھی اسی ملک سے ملتے ہیں‘جن میں نائین الیون ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے اور ۲۰۰۵ کے لندن بم دھماکے شامل ہیں‘ جن کا پاکستان سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق تھا۔
یہ وفود دنیا کے سامنے پاکستان کا اصلی چہرہ لانے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہمسایہ ملک دنیا یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا آیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا اصل شکار ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اس کے ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں جبکہ اربوں روپے مالیت کی املاک کا نقصان ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان عالمی دہشت گردی کا مرکز ہے جس سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک نئے نظریہ کومتعارف کرایا ہے اور اسے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو دہشت گرد’جوہری بلیک میل‘کے پیچھے چھپتے ہیں‘ان کے اس حربے کو برداشت نہیں کیا جائیگا اس کے علاوہ دہشت گردوں، ان کے رہنماؤں اور ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
سات وفود کا ۳۲ممالک کا دورہ حکومت کی جانب سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں کا حصہ ہے۔ وفود غیر ملکی دارالحکومتوں کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت اپنے ہمسایہ ملک سے جاری ہونے والی دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور دنیا کو بھارت اور پاکستان کا موازنہ نہیں کرنا چاہئے… ایک دہشت گردی کا شکار اور دوسرا مجرم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔