وادی میں خسک سالی کا دورانیہ دراز ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے جھلستی گرمی سے لوگوں کو کوئی راحت بھی نصیب نہیں ہو پارہی ہے ۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ امسال جون کا مہینہ وادی میں گزشتہ کم و بیش ۵۰ برسوں میں گرم ترین درج ہوا جبکہ بارشوں میں بھی ۵۰ فیصد کمی درج کی جا رہی ہے ۔
جھلستی دھوپ اور بارشوں کانہ ہونا‘کشمیر جیسی ماحولیاتی اعتبار سے نازک جگہ کیلئے اچھی خبر نہیں ہے ۔کشمیر کی جی ڈی پی میں شعبہ باغبابی کا ایک بڑا اور کلیدی رول ہے اور بڑھتا درجہ حرارت اور بارشوں کانہ ہونا اس شعبہ کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ مسلسل گرمی پھلوں پر سورج کی جلن کا سبب بن سکتی ہے اور ان کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں میوہ چھوٹے سائزکا اگے گا اس کا معیار خراب ہوگا اور بازار میں اس کی قیمت میں کمی ہو سکتی ہے۔
وادی میںبہت سے لوگوں کیلئے، سیب کی کاشت ایک اہم اقتصادی سرگرمی ہے اور پانی کی کمی نے اس سال کی فصل کو خاص طور پر کمزور بنا دیا ہے۔سیب باغ مالکان کاکہناہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی اتنی سخت گرمی نہیں دیکھی۔ یہاں تک کہ اونچے علاقوں میں بھی نہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ اس کا براہ راست اثر سیب کی فصل پرپڑنے لگا ہے ۔ان کے مطابق اگر ہیٹ ویو جاری رہی تو فصل کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔
جون میں کشمیر میں بارش کی مقدار نمایاں طور پر اوسط سے کم رہی۔سری نگر نے اس دوران ۶۵ فیصد بارش کی کمی ریکارڈ کی۔بانڈی پورہ میں ۷۱ فیصد کمی‘کولگام میں ۶۲ فیصد، بارہ مولہ میں ۴۷ فیصد، گاندربل میں۵۴ فیصد، شوپیان میں ۴۴ فیصد، کپواڑہ میں۳۶ فیصد، اور پلوامہ میں ۱۳ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
بارشوں میں کمی سے وادی میں قلت آب کا بھی سامنا ہے جبکہ کئی آبپاشی کی نہریں خشک ہوگئی ہیں، جس کی وجہ سے کسان، خاص طور پر جنوبی کشمیر میں، موجودہ زراعی موسم کے دوران پریشان ہیں۔مسلسل خشک سالی کی وجہ سے سرینگر سمیت وادی کے کئی علاقوں میں لوگوں کو پینے کے پانی کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ اب ناصاف یا ندی نالوں کا بغیر فلٹر کیا ہوا پانی پینے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔
اس صورتحال کے پیش نظر وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو سول سیکرٹریٹ سر ینگر سے پانی کے۱۰ ٹینکروں کے بیڑے کو ہری جھنڈی دِکھا کر روانہ کیا۔حکومت کاکہنا ہے کہ یہ اَقدام وادی کشمیر بھر میں پانی کی فراہمی کی خدمات کو بڑھانے کے لئے کیا گیا ہے بالخصوص اُن علاقوں میں جہاں گرمی کی وجہ سے پینے کے پانی کی طلب زیادہ ہے یا جہاںپائپ سے پانی کی ترسیل میں عارضی رُکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اِس موقعہ پر وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت ہر گھر کو محفوظ اور صاف پینے کے پانی کی بلا تعطل رَسائی کو یقینی بنانے کیلئے پُرعزم ہے‘لیکن اس بات کو حکومت کیسے یقینی بنائیگی اس کا کوئی روڈ میپ پیش نہیںکیا گیا ہے ۔
بڑھتا ہوا درجہ حرارت یا بارشوں کی مقدار کا کم ہونا یہ کوئی مقامی اشو نہیں بلکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن کا پوری دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔اسی لئے بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قدرت کا خیال رکھتے ہوئے زندگی بسر کی جائے لیکن کیا ایسا کیا جاتا ہے؟ اور اگر کیا جاتا ہے تو گلوبل وارمنگ ایشو کیوں بنتی رہتی ہے؟ وقتاً فوقتاً اس کی سنگینی کا احساس کیوں دلایا جاتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں کوئی نہیں ہے ۔مقامی سطح اور نہ عالمی سطح پر کیونکہ سب جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام بغیر سنجیدہ اقدامات کئے نہیں ہوگی اور اس کے لیے قربانیاں دینی ہوں گی، یہ احساس کرنا بھی ہوگا اور کرانا بھی ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ ان ملکوں کے حق میں بھی نہیں جو اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اس کی روک تھام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور ان ملکوں کے لیے بھی نہیں جو اس کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچتے، اس کی روک تھام کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے۔
یہ لاپروائی کا بھی نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے حالات بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کہیں گرمی کے دنوں میں اضافہ ہو رہا ہے، کہیں شدید گرمی پڑ رہی ہے، کہیں کے لوگ سیلاب سے بے حال ہیں اور کہیں کے لوگوں کو خدشہ اس بات کا ہے کہ گلیشیروں کے پگھلنے کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا اور اس میں شدت آگئی تو پھر ان کے ملک اور شہروں کا کیا ہوگا؟ کہیں سمندر ان کے ملک اور شہروں کو نگل تو نہ جائیں گے؟ انہیں قصۂ پارینہ تو نہ بنا دیں گے؟
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ(گلوبل وارمنگ) کشمیر پر نمایاں اثر انداز ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشئرز کا پگھلنا اور بارش کے پیٹرن میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں، جو کہ پانی کے وسائل، زراعت،باغبانی اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتی ہیں۔
جون کا گزشتہ ۵۰ برسوں میں گرم ترین مہینہ ہونا ‘بارشوں کی مقدار میں زائد از پچاس فیصد کمی اور اس کے باغبانی پر ممکنہ اثرات کشمیر کو بیدار کرنے کیلئے کافی ہیں کہ اگر کشمیر اب بھی بیدار نہ ہوا اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سنجیدہ نہیں لیا تو اس کا براہ راست اثر ہماری معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے ‘سیاحت پر بھی ۔