کہتے ہیں کہ کشمیر میں سوال نہیں پوچھنے چاہئیں اور … اور بالکل بھی نہیں پوچھنے چاہئیں کہ … کہ ایک تو یہاں سوال پوچھنا منع ہے اور سختی سے منع ہے اور… اور ساتھ ہی اگر آپ نے ہمت کرکے سوال پوچھا بھی تو… تو بھول جائیے کہ …کہ آپ نے کوئی سوال پوچھا تھا کہ … کہ یہاں سوالوں کے جوابات نہیں دئے جاتے ہیں… اور بالکل بھی نہیں دئے جاتے ہیں‘ ایسا یہاں کہتے ہیں‘ ایسا یہاں لوگوں کا جاننا اور ماننا ہے ۔لیکن… لیکن صاحب ہم ایسا نہیں مانتے ہیں اور بالکل بھی نہیں مانتے ہیں… ہمارا ماننا ہے کہ یہاں سوالوں کے جوابات ہوتے ہیں… یہاں پو چھے جانے والوں کے سوالوں کے جوابات بھی مل جاتے ہیں … کوئی سوالوں کو ٹالتا نہیں ہے… کوئی بھی نہیں ‘ لیکن… لیکن یہ ضروری نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیںہے کہ سوالوں کے جو جوابات دئے جائیں وہ صحیح ہوں ‘ وہ سچ ہوں۔سچ تو یہ ہے کہ جواب کے نام پر آپ کو کوئی بھی جواب دیا جا سکتا ہے ‘ کوئی بھی بات کہی جا سکتی ہے ‘ کوئی بھی دلیل دی جا سکتی ہے… اور اس لئے دی جا سکتی ہے کیونکہ جواب دینے والا جانتا ہے… وہ مانتا ہے کہ اس کے اس جواب پر کوئی سوال نہیں اٹھائے گا … بالکل بھی نہیں اٹھائے گا ۔جواب کے نام پر کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ‘ وہ کہہ سکتا ہے جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو‘ وہ کہہ سکتا ہے جو حقیقت میں ہوا ہی نہیں ہو‘وہ کہہ سکتا ہے جو جھوٹ ہو ‘وہ کہہ سکتا ہے جو سچ نہیں ہو … اور بس بات ختم ۔مجال کہ پھر اس کے اس’جواب‘ پر کوئی سوال کرے … نہیں صاحب ایسا کہیں او ر ہو سکتا ہے… لیکن کشمیر میں نہیں… بالکل بھی نہیں … یہاں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے … اور یہ ہم روز دیکھتے ہیں… آئے دن دیکھتے ہیں… ہفتوں ‘ مہینوں اور سالوں سے دیکھتے آئے ہیں… اداکار بدل گئے ‘ لیکن کردار وہی پرانا … سکرپٹ کی طرح گھسا پٹا‘ پھٹا پرانا ۔لوگ جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ ان کے سوالوں کا جو جواب آرہا ہے … وہ صحیح نہیں ہے‘ وہ جھوٹ ہے … ایسا جھوٹ جس پہ کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا ہے… لیکن… لیکن وہ پھر بھی سوال کررہے ہیں… سوال پوچھ رہے ہیں… اس امید کے ساتھ کہ ایک نہ ایک دن ادا کار کی طرح اس کا کردار بھی بدل جائیگا اور… اور سکرپٹ بھی ۔ ہے نا؟