پاکستان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں حالیہ گولہ باری کے بعد متاثرہ علاقوں میں انفرادی و اجتماعی بنکروں کی تعمیر کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ان علاقوں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اگر مطلوبہ تعداد میں بنکر تعمیر کئے گئے ہوتے تو اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا زیاں نہیں ہو تا ۔
آپریشن سندر کے ردعمل میں پاکستان نے کنٹرول لائن کے علاوہ جموں میں بین الاقوامی سرحد کے اسِ پار شہری علاقوں پر اندھا دھند گولہ باری کی جس سے کم و بیش ۱۸ سے ۲۰؍ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ۔ اس کے علاوہ نجی اور تجارتی املاک کو بھی نقصان پہنچ گیا ہے ۔
دونوں ممالک میں سیز فائر کے بعد سرحدی علاقوں میں امن و سکون بحال ہو رہا ہے اور نقل مکانی کے بعد لوگ گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں ‘ لیکن حالیہ کشیدگی اور تناؤ نے ان کے اس مطالبے کو تقویت دی ہے کہ سرحدی علاقوں میں انفرادی و اجتماعی بنکر مطلوبہ تعداد میں تعمیر کئے جائیں تاکہ مستقبل میں کسی خطرے کی صورت میں شہری آباد ی کو محفوظ ٹھکانوں پر منتقل کیا جائے ۔
سیز فائر سے یقینا سرحدی علاقوں کے رہائشیوں نے راحت کی سانس تو لی ہے لیکن ان کاساتھ ہی کہنا ہے کہ صورتحال کب کیا رخ اختیار کر سکتی ہے ‘ اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے ۔ان رہائشیوں کیلئے، بنکر ایک اختیاری ڈھانچے سے ایک زندگی کی لکیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس تصادم کے کوئی خاتمے کی صورت نظر نہیں آ رہی۔
جموں کشمیر کے حکام کاکہنا ہے کہ پچھلی دہائی میں، تقریباً ۹۵۰۰ بنکر لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے ساتھ سرحدی دیہاتوں میں بنائے گئے ہیں‘ لیکن طلب ابھی بھی زیادہ ہے۔ اس لئے حکام کاکہنا ہے کہ مزید بنائے جائیں گے تاکہ کسی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
وزیر اعلیٰ ‘ عمرعبداللہ جنہوں نے پاکستانی گولہ باری سے متاثرہ سرحدی علاقوں کا دورہ کیا ‘ کا بھی کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں مزید انفرادی اور اجتماعی بنکر بنائے جائیں گے۔
دونوں ممالک میںکچھ برس قبل کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کے بعد سرحدی علاقوں کے رہائشیوں نے جہاں راحت کی سانس لی تھی وہیں انہوں نے اپنے معمولات بھی بحال کر لئے تھے ۔لوگ بغیر کسی خوف اور ڈر کے اپنے روز مرہ کے کام اس امید کے ساتھ انجام دے رہے تھے کہ بری دن ختم ہو گئے ہیں اور اب سرحدوں پر سکون ایک مستقل بات ہے ۔
سرحدیں پر سکون ہوجانے سے ان علاقوں میں بنکروں کی تعمیر کا کام بھی سست روی کا شکار ہو گیا جبکہ یہ شکایات بھی آ رہی ہیں کہ بنکروں کی تعمیر کیلئے مرکز کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز کا صحیح استعمال نہیں ہوا ہے ۔
پونچھ میں حکمران جماعت کے ممبر اسمبلی ‘ اعجاز جان کاکہنا ہے کہ کئی بنکر وں کا وجد صرف کاغذی ہے اور زمین پر ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔
سرحدی رہائشیوں کیلئے۲۰۱۸میں۱۴ہزار۴۶۰ بنکروں کی منظوری گئی ۔ سانبہ، جموں، کٹھوا، پونچھ اور راجوری کے اضلاع میں۱۳ہزار۲۹؍انفرادی بنکر اور۱۴۳۱ کمیونٹی بنکروں کی تعمیر کیلئے۷۳ء۴۱۵ کروڑ روپے منظور کئے گئے ۔لیکن لوگوں کی شکایات ہیں کہ رقومات میں خر و برد کیا گیا اور اس وقت اس سارے معاملے کی جانچ اے سی بی کررہا ہے ۔
اعجازجان نے کہا کہ بہت سے بنکر جن کے لیے فنڈ جاری ہوئے ہیں، زمین پر موجود نہیں ہیں۔ ان کاکہناہے کہ اگر بنکر ہوتے، تو پونچھ میں گولہ باری کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا۔
جان کے مطابق پی ڈبلیو ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ تعمیری مواد جیسے سیمنٹ اور اسٹیل پونچھ کے کچھ علاقوں میں بھیجا گیالیکن ان میں سے کچھ بنکر زمین پر موجود نہیں جبکہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ تعمیری مواد کا کیا ہوا۔ان کاکہنا ہے کہ ان عارضی حلوں کی بجائے، حکومت کو ایسی مستقل بنکرز پیش کرنے چاہئیں جو کنٹرول لائن کے ساتھ صفر لائن پر آنے والے علاقوں کیلئے ہوں تاکہ سرحدی رہائشیوں کی مصیبتیں ختم کی جا سکیں۔
ہند پاک میں حالیہ کشیدگی سے اگر کوئی ایک بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ مسلح ٹکراؤ کی صورت میں مجموعی طور پر دونوں ممالک کا کوئی شہری محفوظ نہیں ہے ۔ دونوں کے پاس ایک دوسرے کے شہروں کو نشانہ بنانے کے ہتھیار موجود ہیں اور گرچہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ملک کا دفاعی نظام اتنا مستحکم اور موثر ہے اس نے پاکستانی میزائل حملوں کو ناکارہ بنا دیا ‘ بھارتی فوجی و غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہمسایہ ملک کی کوششیں ناکام بنا دی گئیں‘لیکن اس کے باوجود عوامی جان و مال کا نقصان اور اس کو لاحق خطرات سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کو ہیں ۔
سرحدوں اب پھر سے پُر سکون ہو گئی ہیں ‘ بظاہر امن لوٹ آیا ہے اور سرحدی علاقوں کے رہائشیوں نے گھر واپسی بھی شروع کردی ہے ‘لیکن امید کی جانی چاہیے کہ بنکروں کی تعمیر کا کام جنگی بنیادوں پر ہاتھ میں لیا جائے گا۔ اس میں کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا جائیگا تاکہ سرحدی علاقوں کے رہائشیوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہو ۔
اس کے ساتھ ہی گولہ باری سے نجی اور تجاری املاک کو جو نقصان پہنچ گیا ہے ‘ ان کی بھر پور امداد کو یقینی بنایا جائیگا تاکہ لوگوں کی زندگیاں واپس معمول پر آجائیں ۔یقینا جموں کشمیر کی حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اکیلے متاثرین کی معاونت و امداد کرے ۔اس کیلئے مرکز سے رجوع کرنا ہو گا تاکہ بر وقت امداد یقینی بن جائے ۔