عید الاضحی میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہا ہے لیکن بازاروں میں وہ گہماگہمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔
سرینگر کے کسی بھی بڑے چھوٹے بازار کا رخ کیجئے دکانیں تو کھلی ہیں ‘ لیکن ان میں خریدار نہیں ہیں ۔ عید الاضحی سے پہلے قر بانی کے جانور خریدنے کیلئے قائم کی گئیں مخصوص منڈیوں میں لوگوں کا خاصا رش رہا کرتا تھا ‘ جو اب کی بار نہیں ہے ۔
بیچنے والے، جنہوں نے اچھے کاروبار کی توقع میں بھیڑ، بکریاں، اور مویشی اکٹھے کیے ہیں، اب اپنے جانوروں کے پاس بیٹھ کر بے صبری سے خریداروں کا انتظارکررہے ہیں۔
بہت سے تاجروں کے مطابق، بازاراقتصادی تھکاوٹ کی واضح علامتیں دکھا رہاہے۔ان کاکہنا ہے کہ کشمیر میں واضح کساد بازاری ہے۔ لوگ عید کی بڑی خریداریوں کے مقابلے میں بنیادی ضروریات اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عام لوگوں کی صرف کرنے کی طاقت کو مفلوج کر دیا ہے۔
وادی میں جاری اقتصادی مشکلات، جو سیاحت میں کمی، کم ملازمت کے مواقع، اور مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں، واضح طور پر اس دوران کم خرچ کے طور پر تبدیل ہو رہی ہیں جب کہ یہ عموماً مارکیٹ کی سرگرمی کا اچھا اور مناسب وقت ہوتا ہے۔
کشمیر کے تاجروں‘ جنہیں امید تھی کہ عید الاضحی کے موقع پر خریداری میں اضافہ ہو جائیگا ‘ جیسا کہ روایت رہی ہے ‘ کو اس صورتحال پر تشویش ہے۔کشمیر ٹریڈ الائنس(کے ٹی اے) نے وادی میں اقتصادی سست روی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس نے تاجروں کی ناگفتہ بہ حالت کو اجاگر کرتے ہوئے جموں و کشمیر حکومت سے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ معیشت کو بحال کیا جا سکے۔
کے ٹی اے نے وادی میں موجودہ کاروباری ماحول کی خطرناک تصویر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دکانیں کھلی تو ہیںلیکن کاروباری سرگرمیاں رک گئی ہیں یا نہ ہونے کے بربرا ہیں ۔
کے ٹی اے نے فوری حکومتی مداخلت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تاجروں کیلئے ایک جامع مراعاتی پیکیج کی اپیل کی ہے۔تاجروں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ۵ فیصد کے سود کی سبسڈی اسکیم پر غور کرے، جو کہ کار خانہ داروں‘تاجروں، اور چھوٹے کاروبار کے مالکان پر مالی دباؤ کو نمایاں طور پر کم کر دے گی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیر کی معاشی سرگرمیاں کچھ برسوں سے سست روی کا شکار ہیں لیکن گزشتہ ماہ پہلگام حملے کے بعد صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے ۔
ماہرین اقتصادیات کاکہنا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد کاروباری سرگرمیوں میں کمی آئی ہے‘ سیاحت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، لیکن معیشت کے دیگر شعبے بھی متاثر ہیں جس کی وجہ سے کاروباری نقصانات ناگزیر ہیں۔
ان کاکہنا ہے کہ حکومت کو مداخلت کرنی ہوگی اور کچھ اقدامات کا اعلان کرنا ہوگا تاکہ معیشت برقرار رہے۔ موجودہ صورتحال سے ملازمتوں اور اقتصادی نقصانات کا خدشہ ہے۔
سیاحت کشمیر کے جی ڈی پی میں بمشکل ۷ تا۸ فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اس لئے معاشی سست روی کی یہی ایک وجہ نہیں ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاحت ایک وسیع اقتصادی سرگرمی کے نیٹ ورک کو فروغ دیتی ہے۔جب سیاح آتے ہیں تو یہ صرف ہوٹلوں یا ٹریول ایجنسیوں کے بارے میں نہیں ہے۔ مقامی ٹیکسی کے ڈرائیور کماتے ہیں۔ ہینڈی کرافٹس کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی بھی اچھی کمائی ہو تی ہے ‘ریستوران بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ چھوٹے موٹے دکاندار بھی سیاحتی سرگرمیوں سے مستفید ہو تے ہیں لیکن پہلگام حملے کے بعد یہ پوری زنجیر ٹوٹ گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق کاروبار میں سست روی کیلئے صرف سیاحت کو ہی ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں۔ترقیاتی سرگرمیاں اُس رفتار سے نہیں ہو رہی ہیں جیسی ہونی چاہیے۔ بہت سے تعمیراتی پروجیکٹ رک گئے ہیں جس سے مارکیٹ میں اعتماد اور پیسے کی گردش کو متاثر ہوئی ہے۔
لیکن کساد بازی کا سارا ملبہ پہلگام حملے پر نہیں ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ کشمیر کچھ دوسرے شعبے ‘ جن کا سیاحت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بھی ‘ کساد بازاری کا شکار ہیں ۔ ان میں ریل اسٹیٹ بھی ہے ۔اس بزنس سے کئی لوگ جڑ گئے تھے اور اپنی روزی روٹی کمانے لگے تھے ‘ لیکن اس شعبہ سے وابستہ افراد بھی اب کچھ ایک برسوں سے شکایت کررہے تھے کہ زمینوں اور مکانوں کی خرید و فروخت میں نمایاں کمی آگئی ہے ۔
دنیا بھر میں آن لائن شاپنگ کا رجحان اب خاصا مقبول ہو رہا ہے اور لوگ گھر بیٹھے اپنی پسندیدہ چیزیں منگوا سکتے ہیں۔ اس رجحان سے کشمیر مستثنیٰ نہیں ہو سکتا ہے ۔ آن لائن شاپنگ خر ایک عالمی مارکیٹ تک رسائی فراہم کرتی ہے‘ جو مقابلے میں اضافہ کرتی ہے اور قیمتوں کو کم کرتی ہے۔ کشمیر میں بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد آن لائن شاپنگ کررہی ہے جس کا براہ راست اثر یہاں کے بازاروں کے ساتھ ساتھ ریٹ پر پڑا ہے ۔تاجروں کاکہناہے کہ وہ چیزیں مہنگے داموں پر بیچنے پر مجبور ہیں کیونکہ بعض اوقات کئی کئی دنوں تک لوگ ان کی دکانوں کا رخ نہیں کرتے ہیں اور سیل نہ ہونے کے برابر ہو تی ہے ۔
یہ بات سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ آخر کشمیر کی معیشت کو بیماری لاحق ہے ۔ یہاں کے بازار عید جیسے مواقع پر بھی ویران کیوں ہیں ۔لوگوں میں قوت خرید کم کیو ں ہو رہی ہے ‘ دکاندار دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے ہیں … یقینا پہلگام حملے کے بعد سیاحوں کا نہ آنا یا آن لائن شاپنگ ہی اس کی وجوہات نہیں ہو سکتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔