قانون کی یکساں اور برابری کی بُنیاد پر عمل آوری ہو تو شہری راحت، اطمینان اور سکون محسوس کرتا ہے لیکن عمل آوری کو جب ذاتی منشاء، خواہشات کی تکمیل، اختیارات کے حوالہ سے دبدبہ اور دہشت قائم کرنے کے تابع کردیا جائے تو انگلی اُٹھنے میں دیر نہیں لگتی بلکہ ہر عوامی سطح پر منفی ردعمل ہی سامنے آجائیگا۔
جموںوکشمیر کے بہت سارے طرۂ امتیاز رہے ہیں، ایک طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں قانون کی عمل آوری کے دعویٰ تو کئے جارہے ہیں لیکن یکساں عمل آوری نہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے۔ قانون کو اپنی من چاہی خواہشات اور منشا کے مطابق جوڑنے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ لوگ ان کا مشاہدہ بھی کرتے آئے ہیں، ان کو سہہ بھی رہے ہیں، اظہار ناراضگی کو بھی زبان دی جاتی رہی ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے معاملات کو کبھی کسی زمانے میں سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ قانون کی ٹانگیں توڑنے اور منشا کے مطابق موڑنے کی روایت نہ صرف مستحکم ہوتی گئی بلکہ اختیارات کے غلط یا ناجائز استعمال کے مرتکب افراد، چاہئے وہ خاکی میں ملبوس ہو یا سویلین اداروں سے وابستہ ہوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔
ٹریفک مینجمنٹ کے تعلق سے مشکل سے ہی کوئی شہری مطمئن ہو، ہر شہری چاہئے وہ پیدل راہ گیر ہے یا نجی گاڑی میں سفرکررہاہے کسی نہ کسی حوالہ سے شاکی ہے۔ ٹریفک مینجمنٹ کے موجودہ طریقہ کار کے تعلق سے جتنے بھی پہلو ہیں ان میں سے کسی نہ کسی پہلو کے بارے میں شاکی بھی ہیں اور غیر مطمئن بھی۔ شکایتوں کے انبار بھی سامنے آتے رہتے ہیں، اہلکاروں کا راہ گیروں اور گاڑی سواروں کے تعلق سے طریقہ کار اور رویوں کو فرسودہ ، بے ہودہ اور غیر انسانی جبکہ کچھ حد سے زیادہ غیر شائستہ تصور کررہے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ٹریفک جام کشمیرکے طول وارض باالخصوص دارالخلافہ سرینگر کی اہم شاہرائوں کے تعلق سے ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے اور اس درد سر سے نمٹنے کی سمت میں ٹریفک مینجمنٹ کے حوالہ سے جتنے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں اورانہیں عملی جامہ پہنایا جارہا ہے ان میں کوئی نہ کوئی خرابی اور کوئی نہ کوئی نقص عود کرسامنے آہی جاتا ہے جو عبورومرور کے حوالہ سے بتدریج تکلیف دہ بھی بن جاتا ہے اور سوہاں روح بھی۔ لیکن ٹریفک حکام اپنے ناقص اور اکثراوقات اپنے ناقابل عمل ٹریفک مینجمنٹ کو ٹھیک سمت عطا کرنے اور غلطیوں کی واضح طور سے نشاندہی کے باوجود کسی سنجیدگی سے کا م نہیں لے رہے ہیں بلکہ برعکس اس کے اپنے اختیارات کے دبدبے سے سرشار ہاتھ میںپڑے چالان بُک کو بغیر کسی سوچے سمجھے اور کسی معقول جواز کے حرکت میں لاکر جرمانہ کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔
غلطی ڈرائیور یا شہری کی نہ بھی ہو لیکن چونکہ موقعہ پر موجوداہلکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ خلاف ورزی کامرتکب ہواہے،لہٰذا چالان کٹ جاتا ہے۔ کوئی دلیل نہیں سنی جارہی ہے، اس طرز عمل اور شہریوں کے ساتھ ناشائستہ برتائو کے پیچھے بھی کچھ لوگوں کے پاس قصے کہانیاں ہیں، وہ قصے اور کہانیاں کس حد تک سچ ہیں یا غلط ان کی گہرائی میںنہ جاتے ہوئے البتہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اہلکار بغیر کسی جواز کے جو چالان کاٹ رہے ہیں اس کا تعلق درحقیقت اُس ٹارگٹ کا حصول ہے جو اعلیٰ سطح پر ریونیو کی حصولیابی کو یقینی بنانے کیلئے انہیں دیاگیا ہے۔ لہٰذا یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے شہری نشانہ بن جائیں تو بن جائیں، قانون طاق پر رکھنا پڑے لیکن پرفارمنس (کارکردگی)پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے۔
ٹریفک مینجمنٹ کی فرسودگی کے حوالہ سے اوسط شہریوں ، کاروباریوں، تاجروں، ٹرانسپورٹ آپریٹروںکو ڈھیر ساری شکایات اور مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان میںسے کسی ایک کو بھی ایڈریس نہیں کیا جارہاہے۔ سرینگر کا لال چوک ، بڈشاہ چوک، ہری سنگھ علاقہ، ناز کراسنگ بشمول ان کے کچھ گرد نواح کے مارکیٹ یا علاقے ہیں جو ہراعتبار سے مصروف ترین ہیں۔ لیکن کسی بھی مارکیٹ میں کسی بھی نجی گاڑی کو پارک کرنے کی اجاز ت نہیں۔ بُنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پارکنگ سے آمدورفت میں خلل پڑتا ہے جو ٹریفک جام کی بُنیاد بن جاتا ہے۔لیکن انہی علاقوں میں کم وبیش ہر چپے پر چھاپڑی فروش اور ریڈہ فروشوں کا قبضہ ہے۔ یہ منظرنامہ دکانداروں کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور نقصان دہ ثابت ہورہاہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گاہک اپنی گاڑی کئی کلومیٹر دور پارکنگ سٹینڈ میں رکھ کر خریداری نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف جموں بھی اسی جموں وکشمیر کا ایک اور دارالخلافہ ہے اور اس کے بھی کئی مصروف ترین بازار ہیں۔ مثلاً روگناتھ چوک سے محض سٹی چوک تک کی بات کریں تو ۲۰۔ ۲۵ فٹ چوڑی اس سڑک کے ایک پورے حصے پر گاڑیاں اور سکوٹر قطار اندر قطار صبح سے شام تک پارک دکھائی دے رہے ہیں۔ مشکل سے اس سڑک کا ۱۰؍ فٹ سے بھی کم حصہ باقی ماندہ عبور ومرور کے لئے وقف ہے۔ لیکن یہاں کوئی چالان نہیں کٹ رہا ہے البتہ اس کے برعکس سرینگر کے لال چوک اوراس کے کسی بھی نواحی مارکیٹ میں معمولی سی لغرش پر چالان کٹ جاتا ہے۔
ایسا کیوں؟ دو راجدھانیوں کیلئے دو ٹریفک قوانین یا دوٹریفک طریقہ کار کیوں؟ ٹریفک مینجمنٹ کی آڑ میںکشمیرکے مصروف ترین بازاروں کے کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جارہاہے جبکہ اہم سڑکوں پر ٹرن لینے کیلئے اضافی میلوں کی مسافت کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑرہاہے۔
دوسری جانب ٹریفک کے بڑھتے مسائل اور دبائو کو ایڈریس کرنے کے تعلق سے بھی کشمیر کے ساتھ ایک نرالا سلوک روا رکھا جارہا ہے جبکہ جموں کے ساتھ دوسر اسلوک روا رکھا جارہاہے۔ کشمیرمیں مشکل سے دو کلومیٹر لمبی مسافت کے فلائی اوئور تعمیر کرکے عوام پر احسان جتایا جاتارہا جبکہ جموں شہر کی کم وبیش سبھی پرانی سڑکیں کئی کئی کلومیٹر تک تعمیر کئے جارہے فلائی اوروں کے نیچے منظر سے ہی غائب ہورہی ہیں۔ یعنی فلائی اوروںکے حوالہ سے ایک نیا شہر بسایاجارہاہے۔
بہرحال فلائی اوروں کا تذکرہ تو اتمام حجت کے زمرے میں آیا ہے، بُنیادی سوال اوسط شہریوں، کاروباری اداروں، پیدل راہگیروں اور دوسرے کاروباریوں کی راحت اور معمول کی زندگی بسر کرنے کی سمت میں بہتر ٹریفک مینجمنٹ اور اس میں ہر پہلو سے سدھار لانے سے ہے، نہ کہ قوانین اور ضوابط کو اپنی منشا کے مطابق موڑ کر استعمال کرنے سے ہے۔ البتہ قوانین کی پاسداری جہاں نگران اداروں کیلئے لازمی ہے وہیںشہریوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوانین اور ضوابط کا احترام کریں اور ٹریفک مینجمنٹ کو بہتر بنانے میں اپنا اشتراک اور تعاون دیں ۔