تاریخ کے طالبعلموں کو زمانہ ٔ قدیم کے بارے میں اگر کچھ جاننے کا شوق ہے تو اللہ میاں کی قسم انہیں کتابوں میں غرق ہو نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے … بالکل بھی نہیں ہے۔ کتابوں میں انہیں صرف پڑھنے کو کچھ ملے گا ‘اگر تاریخ کے طالبعلموں کو زمانہ قدیم کے بارے میں کچھ بھی دیکھنے … جی ہاں اپنی آنکھوں سے دیکھنا کا شوق ہے تو اللہ میاں کے فضل و کرم سے ہم ان کا یہ شوق پورا کر سکتے ہیں… مہنگائی کے اس دور میںبالکل مفت میں پورا کر سکتے ہیں ۔انہیں کچھ خاص نہیں کرنا ہے ‘ صرف کشمیر کے دورے پر آنا ہے ‘وہ کشمیر جو زمانہ قدیم کا جیتا جاگتا نمونہ ہے ‘ ایسا نمونہ جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہو سکتا ہے ۔ اگر بارش نہ ہو تو نل کے ساتھ ساتھ لوگوں بھی پیاسے رہتے ہیں ‘ بارش ہو جائے تو پھر سڑکیں اورگلی کوچے جھیل بن جاتے ہیں ۔ہوا ابھی اپنے آنے کا پتہ ہی بتا رہی ہوتی ہے کہ بجلی کا پتہ کٹ جاتا ہے … گھنٹوں کٹ جاتا ہے۔برفباری نہ ہو تو لوگ اللہ میاں سے اس کیلئے دعائیں کرتے ہیں ‘ اور جب ہو جاتی ہے تو سرینگر جموں شاہراہ بند ‘ بجلی اور نہ کہیں پانی ۔اور بھی بہت کچھ کہنے کو ہے ‘ لیکن… لیکن صاحب اس پر بات پھر کبھی کہ… کہ یہ تو محض اُس کشمیر کی کچھ جھلکیاں ہیں جو زمانہ قدیم کا حقیقی نمونہ ہے ۔تفصیل تو بھیا ہم تاریخ کے ان طالبعلموں کو ہی بتا دیں گے جو زمانہ قدیم کے بارے میں کچھ جاننے نہیں بلکہ دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔اس گارنٹی کے ساتھ کہ یہ نمونہ صرف کشمیر ہی پیش کر سکتا ہے ‘ جموں نہیں حالانکہ وہ بھی اسی ریاست کا ایک حصہ ہے … لیکن اسے یہ امتیاز اور شرف حاصل نہیں۔ زمانہ قدیم کا نمونہ ہونے کا شرف تو صرف کشمیر کو ہی حاصل ہے ‘ کشمیر کو ہی حاصل ہو سکتا ہے … اور اس لئے حاصل ہو سکتا ہے کہ اسے اس قدیم زمانے سے باہر نکالنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں… اور خوب ہو رہی ہیں… انہیں ثمر آور ہونے میں وقت لگے گا اور… اور اس لئے لگے گا کہ بات … بات کئی دہائیوں کی … بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہ دینے کی کئی دہائیوں کی ۔ ہے نا؟