ووٹ بینک کی سیاست یا ووٹ بینک کی مصلحتوں سے عبارت ریز رویشن پالیسی کے منفی اثرات اور نتائج بتدریج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ پالیسی معاشرتی سطح پر بھی کئی ایک اقدار کو تہہ وبالا کرنے کا باعث بنتی جارہی ہے وہیں زندگی کے مختلف شعبوں باالخصوص انتظامی، میڈیکل، تعلیمی اور دوسرے کئی اہم شعبوں کی بُنیادوں کو بھی کھوکھلا کرتی جارہی ہے۔ صلاحیت اور ذہانت کا فقدان گہراہوتا جارہاہے جبکہ مختلف شعبوں کے تعلق سے بنجر سے مطابقت رکھتے ہوئے End Productکی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
ملکی سطح پر بہت سارے ادارے اور شخصیات ریزرویشن کے موجودہ طریقہ کار کوختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں اور اپنے اس مطالبے یا نظریے میں کیا کچھ منطق ہے اس کے بارے میں دلائل بھی پیش کررہے ہیں لیکن مختلف نظریات کی حامل سیاسی شخصیات اور کچھ مخصوص سیاسی پارٹیاں ایسا نہیں چاہتی بلکہ آئے روز آبادی کے مختلف طبقوں کو ریزرویشن کے زمرے میں لانے کی وکالت کرکے ملک میں زمرہ بندی کے کلچر کو بڑھاوا دے کر اس کی ہر طرح سے آبیاری کررہے ہیں۔
زمرہ بندی کے تعلق سے فہرست لمبی ہے۔ اب یہ پچاس فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے جبکہ شیطان کی آنت کی طرح اپنی لمبائی بڑھاتی جارہی ہے۔ جن لوگوں کو گذرے ۷۵؍ سالوں کے دوران کسی نہ کسی زمرے سے وابستہ تعلق جوڑا گیا، زندگی کے ہر پڑائو پر وہ اس مخصوص کوٹہ کے تحت مراعات اور سہولیات حاصل کرتے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان گذرے برسوں میں وہ پسماندہ ہی رہے، کوئی ترقی نہیں کی،کیا وہ تعلیم سے محروم رہے، المیہ یہ ہے کہ یہ مراعات اور سہولیات یک وقتی نہیں بلکہ قدم قدم پر تعلیم سے لے کر سرکاری ملازمت حاصل کرنے اور پھر ملازمت کے دوران اگلے پڑائو کی جانب پیش قدمی کیلئے بھی کوٹہ سسٹم کا پہیہ گھمایا جارہاہے۔ جو لوگ اس مدت کے دوران اقتصادی ترقی کے زینے طے کرچکے ہیں اور مالی اعتبار سے آسودہ حال بن گئے ہیں ، رہائش کیلئے کوٹھیاں ہیں، گاڑیوں کے فلیٹ ہیں، منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں اور اثاثے ہیں لیکن اپنی اگلی نسل درنسل کیلئے کوٹہ طلب کرتے جارہے ہیں ۔
کب تک……؟ کب تک اوپن میرٹ سے وابستہ آبادی کے طبقوں کے ساتھ دوسروں کیلئے ریزرویشن کے نام پر زیادتی اور ناانصافی کی جاتی رہیگی ۔ زمانہ ۱۹۴۷ء سے بہت آگے جاچکا ہے ، فی الوقت ترقی پذیر دور سے ملک گذررہاہے، دُنیا کے کچھ ممالک ملک کے بارے میں یہ پیش گوئیاں بھی کرتے سنے جارہے ہیں کہ ہندوستان بہت جلد طاقتور کے طور پر دُنیا کے نقشے پر اپنا مقام حاصل کرنے کی جانب سبک رفتاری کے ساتھ پیش قدمی کررہاہے، مقابلہ آرائی کا مرحلہ ہے، مصنوعی ذہانت کے اہم ترین پڑائومیں نسل انسانی داخل ہوچکی ہے، لیکن ہندوستان کے کچھ مخصوص فکر کے سیاستدان ریزرویشن کوٹہ میں اضافہ کرنے کیلئے آئے روز چیخ وپکار کررہے ہیں بلکہ اس مخصوص کلچر کو بڑھاوا دینے کیلئے وہ سب کچھ کرگذرتے ہیں جو ان کی پہنچ میں ہے۔
بے شک ریزرویشن پالیسی کو اپنی اپنی سیاست کاری کا اہم حصہ بناتے اور سودا سلف کے طور فروخت کرکے کئی سیاسی پارٹیاں اقتدار کی منزل کے نزدیک ہوجاتی ہے یا اقتدار میں آجاتی ہیں لیکن اس مخصوص سسٹم نے ملک کی پیش رفت کو کئی اعتبار سے بریک لگارکھی ہے جبکہ طبقاتی اور فرقہ وارانہ طرزنظام اور طرز معاشرت کی جڑوں کو مزید منظم کرکے اسے مضبوطی تو عطا کررکھی ہے لیکن پیداوار کے حوالہ سے صلاحیت ، ذہانت ، توانائی وغیرہ کا فقدان گہرا ہوتا جارہاہے۔
ریزرویشن کا طریقہ کار اوپن میرٹ زمرے سے وابستہ کسی اُمیدوار چاہے اس کا واسطہ ملازمت سے ہو یا کسی پیشہ ورانہ ادارے میں داخلہ سے ہو کیلئے کس حد تک سم قاتل ثابت ہورہاہے یہ کوئی پوشیدہ راز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر NEETکے حالیہ امتحانات کے نتائج پر محض سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو کئی تکلیف دہ اور پریشان کن معاملات اس حوالہ سے سامنے آجاتے ہیں۔ مثلاً اوپن میرٹ کے زمرے کے تحت کامیاب اُمیدوار اپنی محنت ، ذہانت اور عرق ریزی سے فہرست میں جگہ تو پالیتا ہے اور اپنی اُمیدوں کے چراغ بھی روشن کرتا ہے لیکن اس وقت مایوس ہوجاتاہے جب کسی مخصوص زمرے سے وابستہ کم نمبرات سے کامیاب اُمیدوار جگہ پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ زیادتی اور ناانصافی NEET تک محدود نہیں بلکہ سروسز سلیکشن ، کم وبیش ہر شعبہ سے وابستہ مقابلہ آرائی کے امتحانات کے حوالہ سے بھی مروج ہے۔
اس اہم پہلو کو نظرانداز کیاجارہاہے یا سرے سے ہی کسی اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جارہا ہے کہ جس تعلیمی یا پیشہ ورانہ ادارے میں اوپن میرٹ سے وابستہ اُمیدوار تعلیم وتربیت حاصل کررہاہے اُسی کے شانہ بشانہ زمرہ سے وابستہ اُمیدوار بھی تعلیم وتربیت حاصل کررہاہے ۔ پھر یہ امتیاز اور ناانصافی کیوں؟ کلاس بھی وہی، پڑھانے والا بھی وہی لیکن اس کے باوجود ترجیح زمرے والے کو دی جارہی ہے۔ یہ زیادتی اور ناانصافی ہی نہیں بلکہ اب ایک لاعلاج ناسور کا روپ بھی دھارن کرچکاہے۔
زمرہ کے تحت اُمیدوار کو معلوم ہے کہ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، سیٹ تو اس کی جھولی میں ویسے بھی آہی جائیگی لیکن غیر زمرہ سے وابستہ اُمیدوار رات دن محنت کررہاہے، آنکھوں کی روشنی تک گنوارہا ہے، اپنی توانائی کے ساتھ بھی کھلواڑ کررہاہے لیکن زمرہ والے شخص سے مات اس کے مقدر کا اب حصہ بن چکا ہے۔
اب کچھ سیاستدان آبادی کے کچھ طبقوں کیلئے اسمبلیوں میں نشستیں مخصوص رکھنے کا نعرہ دے رہے ہیں۔ جموں وکشمیر کے حوالہ سے بھی بیرون ریاستوں کے کچھ سیاستدان آبادی کے کچھ طبقوں کے لئے اسمبلیوں میں حلقے مخصوص رکھنے یا نامزدگی کے تحت مخصوص کرنے کے مطالباتی اور ووٹ بینک سیاست کولے کر بیان بازی کررہے ہیں۔ اس نعرہ بازی کا بادی النظرمیں تعلق طبقاتی اور فرقہ وارانہ سیاست کاری سے ہے۔ ان سیاستدانوں کی اس نوعیت کی بیہودہ اور غیر منطقی نعرہ بازی جموں وکشمیر کے لئے مسائل اور نامساعد حالات اور منفی انداز فکر سے عبارت آگ کے نئے شعلوں کو بھڑکانے کا بھی موجب بن سکتی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ نعرے بلند کرنے والوں کو اس کا احساس نہیں کیونکہ جموں وکشمیر کے حوالہ سے ان کا کچھ بھی دائو پر نہیں لگاہوا ہے۔