سرینگر//
وادی کشمیر کے جھیل سیاحوں کیلئے بہترین تفریح گاہیں ہی نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کیلئے روزی روٹی کا بھی ایک موثر وسیلہ ہیں۔
سرینگر سے تعلق رکھنے والا محمد شفیع راتھر ٹھٹھرتی سردی میں یہاں آنچار جھیل کے پانیوں میں گھنٹوں صرف کرکے ندرو نکال کر اپنے اور اپنے عیال کیلئے روزی روٹی کی سبیل کرتا ہے ۔
ندرو کشمیر کی پسندیدہ غذا ہے کنول کے پھول کی جڑ کو کشمیر میں ’ندور‘کہا جاتا ہے ۔ کشمیر کے ہر گھر میں ندرو گوشت کے علاوہ مختلف سبزیوں کے ساتھ پکایا جاتا ہے ۔
ندرو کو کنول کی ککڑی بھی کہتے ہیں یہ سبزی جھیل ڈل، جھیل ولر، جھیل منسر وغیرہ میں بھی اگائے جاتے ہیں۔ گرچہ ندرو باقی سبزیوں کے مقابلے میں مہنگا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے لوگ اس کو خرید کر اپنے دسترخواں کا حصہ بناتے ہیں۔
خاص موقعوں پر اس کو یہاں ہر گھر میں پکایا جاتا ہے خاص طور مچھلی کے ساتھ جب ندرو کو پکایا جاتا ہے تو اس کا ذائقہ بے مثال ہوتا ہے ۔
محمد شفیع آنچار جھیل میں اپنی ناؤ میں کئی گھنٹے بیٹھ کر ندرو نکال کر ان کو صاف کرکے ان کی گھٹریاں بناتا ہے تاکہ بازار میںٍ لے کر ان کو بیچ سکے اور اپنے عیال کا پیٹ پال سکے ۔
انہوں نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا’’میں ساتویں جماعت میں ہی پڑھتا تھا کہ میرے والد انتقال کر گئے اس کے بعد میری شادی کر دی گئی اور میں نے جھیل جا کر ندرو نکالنے کا کام شروع کر دیا‘‘۔ان کا کہنا ہے’’ندرو کا کاروبار میرے روز گار کا واحد وسیلہ ہے اسی پر میرے عیال کی روزی روٹی کا انحصار ہے ‘‘۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ندرو صحت کیلئے ایک انتہائی فائدہ بخش غذا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اس میں پوٹاشیم، فاسفورس، وٹامن بی وغیرہ پائے جاتے ہیں۔
محمد شفیع کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا کاروبار ہے جس سے میں اپنے عیال کا اچھی طرح سے پیٹ پالتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ندرو کے گارڈن (جس جگہ یہ اگائے جاتے ہیں) کی سال بھر دیکھ بال کرنا پڑتی ہے ۔
ان کا کہنا ہے’’موسم گرما کے دوران اس کا زیادہ ہی خیال رکھنا پڑتا ہے اس جگہ پانی کو زیادہ سے زیادہ صاف و شفاف رکھنا پڑتا ہے وہاں جمع ہونے والے سڑے پتوں اور دوسری گھاس پھوس کو صاف کرنا پڑتا ہے ‘‘۔
محمد شفیع نے کہا کہ ستمبر تک ندرو کو تیار کرنے کے لئے یہ با مشقت کام کرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اکتوبر سے اس فصل کی کاشت شروع ہوجاتی ہے جو پورے موسم سرما کے دوران جاری رہتی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ٹھٹھرتی سردیوں میں پانی کے اندر جا کر ندرو کو نکالا جاتا ہے جو انتہائی صبر آزما اور پر مشقت کام ہے ۔
شفیع نے کہا کہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے اور ندرو کی ایک گھٹری کی جو موجوہ ریٹ ہے وہ اس سے زیادہ ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ بازار میں ندرو کی ایک گھٹری دو سو سے تین سو روپیے میں ملتی ہے ۔
کشمیر میں ندرو سبزی کے بطور ہی استعمال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس کے چپس، خاص کر ’ندر منجہ‘بھی تیار کی جاتی ہیں جن کو لوگ خرید کر خوب کھاتے ہیں۔