اسلام آباد//
پاکستانی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی، نسلی اور مذہبی انتہا پسندی سمیت کئی مسائل ہیں اور وہاں حکومت کرنا پاکستان کی طرح آسان کام نہیں ہے ، لیکن یہ ہر لحاظ سے آج پاکستان سے بہتر ہے ۔
تجزیہ کاروں نے کہا’’پاکستان کی پوزیشن۱۹۸۰کی دہائی تک بہت سے معاشی پیمانوں میں ہندوستان سے بہت بہتر تھی، لیکن۱۹۹۰کی دہائی کے اوائل میں لائسنس راج کے خاتمے نے پاکستان کو کئی طریقوں سے پیچھے چھوڑ دیا۔ آج ہندوستان کی سالانہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان سے۴۰گنا زیادہ ہے ۔ ان کے مرکزی بینک کے ذخائر ۵۸۰بلین ڈالر سے زیادہ ہیں اور ہمارے آٹھ ارب ہیں۔ آج بھارت انسانی ترقی کے کئی پیمانوں میں پاکستان سے بہت آگے ہے ‘‘۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ پاکستان کے حالات اس قدر خراب ہیں کہ بنگلہ دیش جس کا رقبہ اس ملک کے صوبہ سندھ کے برابر ہے اور اس کا زیادہ تر رقبہ زیر آب ہے ، جو وسائل کے لحاظ سے انتہائی غریب ملک ہے اور جہاں کرپشن عروج پر ہے ‘ مطلق العنان حکومت ہے وہ بھی آج تقریباً تمام سماجی اور معاشی معاملات میں پاکستان سے آگے ہے جس میں آمدنی، برآمدات، تعلیم، آبادی پر کنٹرول، متوقع زندگی جیسے معاملات شامل ہیں۔
پاکستان کی فی کس آمدنی جنوبی ایشیائی ممالک میں نیپال کے علاوہ باقی تمام ممالک سے کم ہے ، صورتحال اس قدر خراب ہے کہ یہاں ہماری صورتحال سب صحارا افریقہ کے ممالک کی اوسط سے بھی کم ہے ۔ تعلیم، بچوں کی اموات جیسے مسائل پر ہم بہت بری حالت میں ہیں۔ یہاں پاکستان میں ہم اکثر اس بات میں الجھ جاتے ہیں کہ ملک میں صدارتی راج ہو یا جمہوری نظام ہو یا فوجی حکمرانی بھی ہو جبکہ دیگر معاملات میں ہم سست روی کا شکار ہیں۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کس قسم کی حکومت ہونی چاہیے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ۷۵سالوں میں جتنی بھی حکومتیں رہیں، ملک میں معاشی ترقی، لوگوں کے جان و مال کی حفاظت، تعلیم اور صحت اور یہاں تک کہ عوام کو صاف پانی کی فراہمی جیسے معاملات میں بھی کام نہیں کر سکے ۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہمارے ملک کی حکومتیں ملک کو درپیش بڑے مسائل کے حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
تجزیہ نگاروں نے کہا کہ مسائل کس ملک میں نہیں ہوتے لیکن ہمارے ملک کی حکومت مسائل سے گریز کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے مسائل ناسور بن جاتے ہیں۔ بات چاہے آبادی کی پالیسی سے لے کر تعلیم تک، انتہا پسندی سے لے کر بجٹ سازی تک اور تجارتی خسارے تک، مقامی خود مختاری سے لے کر نجکاری تک، ترقی سے لے کر لوگوں کی آمدنی کے وسیع تنوع تک کچھ بھی ہوہماری حکومتیں ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ ہم عید کے چاند جیسے عام معاملات کو بھی حل نہیں کرسکتے ۔
تجزیہ کاروں نے کہا’’مثال کے طور پر، جنرل مشرف کے دور میں ملک پر۲۵ بلین ڈالر کا گردشی قرضہ تھا، جو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور میں بڑھ کر۵۰۰بلین ڈالر ہوگیا اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دور میں۱۱۰۰بلین ڈالر اورپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں۲۵۰۰بلین ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا۔ ان میں سے کسی حکومت کے پاس اس معاملے کو حل کرنے کا وقت نہیں تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ معاملہ بے قابو ہو چکا ہے ۔
زیادہ تر لوگ پاور سیکٹر میں کام کر رہے ہیں لیکن بجلی کی چوری، بجلی کی تقسیم کے دوران ہونے والے نقصان وغیرہ جیسے مسائل حل نہیں ہوئے اور یہ اس وقت تک ہوبھی نہیں سکتا جب تک ہم نجکاری کو دانشمندی سے نہیں اپناتے ۔ کوئی بھی ملک ہو، خواہ وہ انتہائی غریب ملک ہی کیوں نہ ہو، وہاں کے امیر لوگوں کی نظریں معاشی ترقی پر نہیں، بلکہ اپنے لیے پیسہ کمانے پر ہوتی ہیں، وہ معیشت میں بڑے حصے پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ یہ صرف ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ہی ہوتے ہیں جوملک کی ترقی کے لیے سوچتے اور اس کیلئے کام کرتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں نے کہا کہ کوئی بھی ملک موثر حکومت اور مضبوط معاشی پالیسیوں کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور ہم اس میں مسلسل ناکام رہے ہیں۔ اگر ہم تعلیم کا معاملہ لیں تو ہمارے ملک میں حکومت تعلیم پر ہر سال۲۰۰۰بلین روپے خرچ کرتی ہے لیکن اسکول جانے والے بچوں کی نصف تعداد اسکول جا ہی نہیں رہی ہے ۔ جو لوگ ہائی اسکول وغیرہ پاس کر چکے ہیں، ان کا لیول اتنا خراب ہے کہ وہ ریاضی کے آسان سے سوال بھی حل نہیں کر سکتے ، کچھ لکھ بھی نہیں سکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس میں بہتری نہیں لائی جا سکتی لیکن یہ وسائل کی کمی سے زیادہ قوت ارادی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے ۔ پاکستان دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے اور ہم ہر سال دنیا کی آبادی میں۵ء۵ملین کا اضافہ کردیتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ چاہے صوبے کی حکومتیں ہوں یا ملک کی حکومت، کسی کو اس کی فکر نہیں۔ وہ آبادی کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتی، اسی لیے وہ ایسا کر بھی نہیں پا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آبادی پر قابو پانے کیلئے بہت زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے ‘اس کیلئے صرف قوت ارادی اور صلاحیت کی ضرورت ہے لیکن اس کی کمی ہے ۔
ان کا ماننا ہے کہ سکیورٹی سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے پاکستان کو ہزاروں بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے ، اس میں بہتری لانا سب سے ضروری ہے ، لیکن پھربات وہیں آجاتی ہے ، اسکے لئے چاہئے صلاحیت، ایک پرعزم دماغ اورہمارے ملک کی حکومتوں میں اسی کی کمی رہی ہے ۔ ایسے حالات میں پی آئی ڈی ای سروے کرایاگیا جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ عام پاکستانی ملک کی حکومتوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، پھر جو نتائج سامنے آئے وہ ایسے ہیں کہ ۴۰فیصد پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان دنیا کا بدترین ملک ہے ۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اب سدھرنے کاوقت آگیا ہے ۔