سرینگر//(ویب ڈیسک)
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ورچوئل اجلاس میں چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کی توثیق کی گئی، تاہم اعلامیے میں بھارت کا نام شامل نہ ہونے کو بعض ماہرین بھارت کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
چین کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کے علاوہ باقی ممالک نے کہا کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ اعلامیے میں چین، روس، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے نام شامل ہیں۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے اجلاس میں بھارت کی نمائندگی کی۔ انہوں نے مشترکہ اعلامیے کے اجرا سے قبل اپنے خطاب میں کہا کہ اس نوعیت کے منصوبوں کے دوران علاقائی خود مختاری کا احترام ضروری ہے۔
خیال رہے کہ چین بی آر آئی کے تحت چین پاکستان تجارتی راہداری (سی پیک) کی تعمیر کر رہا ہے۔ یہ راہداری پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے بھی گزرتا ہے۔
بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے اس راہداری کا گزرنا اس کی علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔
جے شنکر نے اپنے خطاب میں ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار بندرگاہ اور ’انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘ (آئی این ایس ٹی سی) کے راستے تجارت کو مزید فروغ دینے پر زور دیا۔
جے شنکر نے ایس سی او ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ پر بھی زور دیا اور کہا کہ ایس سی او ارکان کے ساتھ بھارت کی تجارت صرف ۱۴۱؍ ارب ڈالر ہے۔ اس میں کئی گنا اضافے کے امکانات ہیں۔
خیال رہے کہ ایس سی اور رکن ممالک میں چین کے ساتھ بھارت کی تجارت سب سے زیادہ ہے جو کہ رواں سال میں۱۰۰؍ ارب ڈالر کو عبور کر چکی ہے۔ روس کے ساتھ اس کی تجارت۲۰؍ ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کی تجارت دو ارب ڈالر سے کم اور پاکستان کے ساتھ صرف ۵۰ کروڑ ڈالر ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سمرقند میں ایس سی او اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی شرکت کی تھی۔انہوں نے مبینہ طور پر بھارت کو وسطی ایشیائی خطے تک مکمل تجارتی راہداری کی سہولت فراہم نہ کرنے پر پاکستان پر تنقید کی تھی۔
جے شنکر نے ایس سی او ممالک کے ساتھ بھارت کے تاریخی اور ثقافتی رشتوں کا ذکر کیا اور غذا، توانائی سیکیورٹی، ماحولیاتی تبدیلی، تجارت اور ثقافت کے شعبوں میں گہرے باہمی تعاون کے بھارت کے عہد کا اعادہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ بھی اپنے تجارتی اشتراک اور تعاون کو فروغ دینے کا حواہش مند ہے۔