سرینگر/۳۰ جولائی(ویب ڈیسک)
پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس اور اس کی دیگر تقریبات میں ایک ساتھ شرکت کی لیکن ایک دوسرے سے بات چیت سے گریز کیا۔
ایک مےڈےا رپورٹ کے مطابق اپریل میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پہلی کثیرالجہتی تقریب ہے جہاں وزیر خارجہ بننے کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک ساتھ شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر دونوں وزرائے خارجہ ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوئیف کی مشترکہ ملاقات کا انتظار کر رہے تھے، اس غیر رسمی ماحول میں بھی دونوں وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے دور بیٹھ گئے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے تلخ رہے ہیں، بی جے پی حکومت کی جانب سے۲۰۹۱ میںجموں کشمیر کی دفعہ ۰۷۳کو منسوخ کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کر دئے۔
بلاول بھٹو زرداری اور ایس جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے قوانین اور چارٹر کی پاسداری کرتے ہوئے دو طرفہ تنازعات کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزامات لگائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں ایک شق موجود ہے جو رکن ممالک کو تنظیم کے اجلاسوں میں دو طرفہ تنازعات کو موضوع بنانے سے روکتی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے خطے کو درپیش چیلنجز اور شنگھائی تعاون تنظیم کی توسیع پر بات کی۔
شنکر نے ایس سی او کی میٹنگ کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سمرقند میں۱۵ اور۱۶ ستمبر کو مجوزہ ایس سی او سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے نقطہ نظر سے اسے مزید مفید قرار دیا۔ بعد ازاں جے شنکر نے قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان کے وزرائے خارجہ اور ایس سی او کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کیں۔
وزےر خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک نتیجہ خیز ایس سی او کی میٹنگ کے بعد تاشقند سے روانگی۔ انھوں آگے لکھا کہ ازبک، تاجک، کرغیز اور قازق ہم منصبوں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں نے بھارت،وسطی ایشیا سربراہی اجلاس کے عمل کو مزید آگے بڑھایا اس کے علاوہ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ موقع پر ہونے والی بات چیت بھی کافی مفید رہی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ نے تنظیم کے قیام کے۲۰ سال بعد اسے درپیش اہم مسائل پر غور کیا جن میں اس کی رکنیت میں توسیع، ایس سی او سیکرٹریٹ کے میکانزم میں بہتری اور عالمی اقتصادی اور سیاسی پیش رفت اور رکن ممالک کے لیے چیلنجز شامل تھے۔
وزرائے خارجہ نے سماجی و اقتصادی تعاون کے مختلف شعبوں سے متعلق تجاویز کی توثیق کرنے والے۱۶ فیصلوں پر دستخط کیے اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کو مضبوط بنانے سے متعلق مشترکہ موقف اپنایا۔