سرینگر/۱۹دسمبر
جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (جے کے پی سی) کے صدر اور ہندواڑہ کے ایم ایل اے سجاد لون نے جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن (بی او ایس ای) کی جانب سے نویں کلاس کی نصابی کتابوں سے حضرت شیخ نور الدین ولیؒ کی زندگی پر مبنی ایک باب کو ہٹانے کی مذمت کی ہے۔
لون نے اسے’خالص ثقافتی دہشت گردی‘اور ’ہماری ثقافت اور اقدار پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شیخ نور الدین ولیؒ کو تمام کشمیری احترام کرتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
پیپلز کانفرنس کے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ دور جو ’تشدد ، لالچ اور نفرت ‘سے بھرا ہواہے ‘ علمدار کشمیر ؒ کی زندگی ’امید کی کرن اور تقلید کےلئے ایک رول ماڈل‘ کے طور پر کام کرتی ہے۔
لون نے کہا’ہمارے عظیم ولی اللہ اور ان کے بزرگانہ طریقے ہمارے دلوں اور ذہنوں میں نقش ہیں۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ شیخ نور الدین ولیؒ کی تعلیمات اور وراثت کشمیر کی ثقافتی اور روحانی شناخت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
شیخ نور الدین ولیؒ جو نند رشی کے نام سے بھی مشہور ہیں، ایک کشمیری صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ وہ کشمیر میں رشی نظام کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ مسلمانوں میں وہ شیخ العالم (یعنی دنیا کے روحانی رہنما) اور علمدار کشمیر (یعنی کشمیر کے پرچم بردار) کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ جبکہ ہندوو¿ں میں انہیں نند لال اور سہجانند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے کاموں اور تعلیمات نے بہت سے روحانی اساتذہ اور سنتوں کو متاثر کیا ہے۔
1377ءمیں کولگام میں پیدا ہونے والے شیخ نور الدینؒ نے 30 سال کی عمر میں دنیاوی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور مراقبہ کی زندگی اپنا لی ۔ وہ جس غار میں رہتے تھے وہ جنوبی کشمیر کے کولگام کے قصبے کیموہ میں ہے۔ یہ غار تقریبا 10 فٹ گہری ہے۔ سری نگر کے ہوائی اڈے کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
شیخ نور الدین ؒ کی تعلیمات اور پیغامات کو نظموں کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے جسے ’شروک‘کہا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں عام طور پر چار سے چھ سطریں ہوتی ہیں اور یہ ان موضوعات کے گرد گھومتی ہیں جو اخلاقی اصولوں کو اجاگر کرتے ہیں اور اکثر امن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات 1438ءمیں چرار شریف میں ہوئی۔ (آئی اے این ایس)