سالانہ امر ناتھ یاترا ہمیشہ سے کشمیر کیلئے اہم رہی ہے لیکن امسال پہلگام کے بائسرن علاقے میں دہشت گردانہ حملے کے بعد اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ یاترا نہ صرف مذہبی لحاظ سے اہم ہے بلکہ کشمیر کی معیشت، ثقافت اور سماجی ہم آہنگی کیلئے بھی ایک اہم ستون ہے۔ خاص طور پر بائسرن واقعہ کے بعد کیونکہ اس سے یہ واضح پیغام جائیگا کہ کشمیر میں مذہبی رواداری موجود ہے۔
۳جولائی سے شروع ہونے والی یاترا کیلئے سکیورٹی اور دوسرے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور اس ضمن میں جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر ‘ منوج سنہا نے بدھ کو بالتل کا دورہ بھی کیا ۔
یاترا کا محفوظ اور کامیاب انعقاد جہاں عام کشمیریوں کیلئے اطمینان کا باعث ہو گا وہیں اس سے ملک بھر کے کروڑوں لوگوں کو یہ اعتماد دے گا کہ کشمیر محفوظ ہے اور وہ یہاں بغیر کسی خوف و خطر کے آسکتے ہیں ۔
بائسرن واقعہ کے بعد کشمیر کی سیاحت کو جو شدید دھچکا لگ گیا ہے ‘ کامیاب امر ناتھ یاترا ‘ سیاحت کے ساتھ ساتھ سیاحوں کا اعتماد بحال کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی ۔اس لئے سیاحت سے جڑے لوگوں کی نظریں یاترا پر مرتکز ہیں ‘ جو چاہتے ہیں کہ کشمیر میں سیاح اسی طرح ایک بار پھر آئیں جیسا کہ ۲۲؍ اپریل کے بائسرن واقعہ ‘ جس میں دہشت گردوں نے ۲۶؍ لوگوں کو ہلاک کردیا‘ سے پہلے آ رہے تھے ۔
گزشتہ ۳۵ برسوں کے دوران بھی یاتراکا محفوظ انعقاد حکومت کی اولین ترجیحات ہوا کرتی تھی ‘ لیکن اب کی بارخاص کر سکیورٹی انتظامات کو لے کر خاصا توجہ دی جا رہی ہے ۔ وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر حکومت کے چیف سکریٹری اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہموار یاترا کیلئے مناسب سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے نیم فوجی دستوں کی۵۸۱ کمپنیاں تعینات کریں۔
وزارت داخلہ نے ۲۳مئی کوجاری کردہ ایک مراسلے میں جموں و کشمیر حکومت کے چیف سکریٹری ، محکمہ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری اور جموں و کشمیر پولیس کے ڈی جی پی کو آگاہ کیا کہ انہیں سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز (سی اے پی ایف) کی ۱۵۶ کمپنیاں ، سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی۹۱ کمپنیاں ، سشستر سیما بل (ایس ایس بی) کی ۳۰کمپنیاں ، سنٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) کی ۱۵کمپنیاں ، بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کی ۱۳ کمپنیاں اور ہند تبتی بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی) کی سات کمپنیوں کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
وزارت داخلہ نے مزید بتایا ہے کہ سی اے پی ایف کی اضافی ۴۲۵ کمپنیاں (بی ایس ایف کی ۱۳۰‘ سی آر پی ایف کی پانچ مہیلا کمپنیوں سمیت ۱۲۸‘ ایس ایس بی کی ۶۷‘ آئی ٹی بی پی کی۵۵؍ اور سی آئی ایس ایف کی۴۵) سیکورٹی انتظامات کیلئے ۱۰ جون تک جموں و کشمیر حکومت کے لیے دستیاب ہوں گی۔سی اے پی ایف کی تمام ۵۸۱ کمپنیاں شری امرناتھ یاترا کی تکمیل تک تعینات رہیں گی اور یاترا کی تکمیل کے بعد ، سی اے پی ایف کی ان ۵۸۱ کمپنیوں کو فوری طور پر شامل کیا جائے گا۔
یاترا کامیابی سے ہونا امن کی علامت ہے اور امسال یہ اس لئے بھی ایم ہے کیوں کہ بائسرن جیسے حملوں کا مقصد کشمیر میں خوف پھیلانا ہوتا ہے، لیکن یاترا کا انعقادظاہر کرے گا کہ کشمیر محفوظ ہے۔
گزشتہ ہفتے میلہ کھیر بھوانی کا پر امن انعقاد بھی ایک اہم پیش رفت تھی ۔وزیر اعلیٰ ‘عمرعبداللہ نے حال میں کہا کہ فی الحال حکومت کی توجہ میلہ کھیر بھوانی اور امر ناتھ یاترا پر مرکوز ہے ‘ ان کے کامیاب انعقاد کے بعد کشمیر میں سیاحت کی بحالی کے بارے میں مطلوبہ اقدامات اٹھائے جائیں گے ۔اور ظاہر ہے کہ کامیاب یاترا اپنے آپ میں ایک واضح پیغام ہو گا کہ کشمیر سیاحوں اور سیاحت کیلئے محفوظ ہے ۔
سیاحت جموں و کشمیر کی معیشت کا ایک اہم جزو ہے، جو اس کی مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار (جی ڈی ایس پی) میں نمایاں طور پر حصہ ڈالتی ہے۔ اس کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ جی ڈی ایس پی کا تقریباً ۷ فیصد ہے جو ہر سال کروڑوں روپے پیدا کرتی ہے۔ اقتصادی اثرات کے علاوہ، جموں و کشمیر میں سیاحت روز گار کے مواقع پیداکرنے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور علاقائی ترقی کو بھی فروغ دیتی ہے۔
اس لئے کشمیر کے لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب امر ناتھ یاترا شروع ہو گی اور ملک کے دوسرے حصوں سے زائرین ‘ جن میں سے ایک اچھی تعداد امر ناتھ گھپا کے درشن کے بعد وادی کے سیاحتی مقامات کا بھی رخ کرتے ہیں ‘ یہاں آئیں۔مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ سیاح کشمیر آئیں تاکہ اس شعبہ سے جڑے لوگ کچھ کما سکیں ‘ بلکہ بائسرن میں جس طرح سیاحوں پر حملہ کیا گیا وہ کشمیریوں کی روایتی مہمان نوازی اور مذہبی رواداری پر بھی ضرب لگانے کی کوشش تھی۔ایک عام کشمیری اپنے اوپر ایک بوجھ سا محسوس کررہا ہے اور چاہتا ہے کہ بائسرن کے زخم جتنے جلد مندمل ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہے اور اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ سیاح ایک بار پھر کشمیر کا رخ کریں ۔
امرناتھ یاترا صرف ایک مذہبی یاترا نہیں بلکہ یہ کشمیر کی معیشت، ثقافت اور امن کے لیے بھی ضروری ہے۔ بائسرن جیسے حملے اس کی اہمیت کو کم نہیں کرتے، بلکہ اسے اور بھی اہم بنا دیتے ہیں، کیونکہ اس کا کامیاب ہونا دکھاتا ہے کہ کشمیر ترقی اور امن کی راہ پر گامزن ہے۔