ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ اس بات کا خلاصہ پیش کرتی ہے کہ کس طرح پاکستان کی غلط معاشی و اقتصاری ترجیحات اس ملک کے لوگوں کو غربت میں دھکیلتی چلی جا رہی ہیں ۔ہفتہ کو جاری اس رپورٹ میں یہ واضح ہو رہا ہے کہ جہاں بھارت گزشتہ ۱۰ برسوں میں کروڑوں لوگوں کو انتہائی غربت سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو اہے وہیں ہمسایہ ملک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد روز نہ روز غربت میں چلی جا رہی ہے ۔
گزشتہ ۱۵ سالوں کا موازنہ جنوبی ایشیا کے ان دو پڑوسیوں کی ترجیحات میں واضح فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ورلڈ بینک اعداد و شمار میں بھارت میں۲۰۱۱۔۱۲؍اور۲۰۲۲۔۲۳ کے درمیان غربت کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا، وہیں پاکستان کے لیے یہ موازنہ ۲۰۱۷۔۲۰۱۸؍اور۲۰۰۲۔۲۰۲۱کے درمیان کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب گزشتہ ہفتے بھارت کی معیشت جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کی خبروں میں تھی، جبکہ پاکستان گزشتہ مہینے آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آؤٹ پیکیج لینے کی کوششوں میں مصروف تھا تاکہ وہ اپنی معیشت کو ڈوبنے سے بچا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں۲۰۲۲۔۲۳ کے دوران۲۴ء۷۵ ملین لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے، جو کہ ۲۰۱۱۔۲۰۱۲ کے۴۷ء۳۴۴ ملین سے کافی کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ۱۱ سالوں میں بھارت میں ۹ء۲۶ کروڑ انتہائی غربت سے باہر نکل آئے۔
لیکن رپورٹ کے مطابق پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ۲۰۱۷سے۲۰۲۱ کے درمیان صرف پانچ سالوں میں انتہائی غربت کی شرح ۹ء۴ فیصد سے بڑھ کر۵ء۱۶ فیصد ہو گئی۔
پاکستان کی معیشت مکمل طور پر عالمی اداروں اور دوست ممالک کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے۔ اس نے آئی ایم ایف سے ۷۵ء۴۴ بلین ڈالرکے ۲۵ بیل آؤٹ پیکجز حاصل کیے ہیں، جبکہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک سے مزید ۸ء۳۸ بلین ڈالر کے قرضے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ، چین سے ۲۵ بلین ڈالر سے زیادہ اور یورو بانڈز اور اسلامی بانڈز (سکوکس) جیسے اداروں سے۸ء۷ بلین ڈالر کے قرضے لیے گئے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پیرس کلب نے بھی نقدی کے بحران کا شکار اسلام آباد کو اربوں ڈالر کے قرضے دیے ہیں۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اقتصادی جائزہ پیش کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خزانہ ‘ محمد اورنگزیب نے کہا کہ قرض کی ادائیگی حکومت کا سب سے بڑا خرچہ ہے۔جائزے کے مطابقموجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں پاکستان کی حکومت کے ذمے قرضے کا حجم ۷۶۰۰۷؍ ارب روپے ہو گیا ہے۔جائزے کے مطابق اس میں مقامی بینکوں کے قرضے کا حجم ساڑھے اکیاون ہزار ارب روپے رہا جبکہ بیرون ملک سے لیے جانے والے قرض کی مالیت ساڑھے چوبیس ہزار ارب روپے تھی۔اس میں کہا گیا ہے کہ مقامی قرضوں کے لیے حکومت نے مقامی کمرشل بینکوں پر انحصار کیاہے۔
پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ مالیاتی اداروں سے حاصل قرضہ جات کے استعمال میں شفافیت سے کام نہیں لے رہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے کئی بار اسلام آباد کو جوابدہی کی کمی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ جنونی موازنہ اور فوج پر بھاری خرچ نے ملک کو ایک ایسی فوج کے حوالے کر دیا ہے جس کی پالیسی ’ہندوستان کو ہزار کٹ لگا کر کمزور کرنا‘ ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے دنیا پاکستان کے مسئلے کو تب تک حل نہیں کر سکتی جب تک کہ پاکستانی فوج کی سیاست اور معیشت میں گھسی ہوئی موجودگی کا ڈھانچہ درست نہیں ہوتا۔ پاکستانی فوج وسائل کی تقسیم کو کنٹرول کرتی ہے، اس لیے تمام فنڈز … چاہے وہ دو طرفہ امداد ہو یا کثیر جہتی ‘ فوج کے ذریعے غلط استعمال ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے مشینری کو مضبوط کرنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ ان اعداد و شمار سے سبق حاصل کرے جو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج ہی بیل آؤٹ پیکجز سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
پاکستانی حکومت کی ترجیحات ایک طرف دفاعی خریداری پر ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کا نیٹ ورک بنانے پر۔ ترقی اور خوشحالی جیسی اصطلاحات پاکستانی سیاست میں سنائی نہیں دیتیں، کیونکہ تمام حکومتوں کا جنونی مقصد بھارت کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر نیچا دکھانا ہوتا ہے، نہ کہ اپنے گھریلو مسائل پر توجہ دینا۔
پاکستان کا دفاع پر پیسہ خرچ کرنا، خاص طور پر جب وہ ترقیاتی اخراجات کی قیمت پر ہو، غیر منطقی ہے۔ دنیا پاکستانی عوام کے ساتھ احسان کرے گی اگر وہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دے، تاکہ وہ عقل مندانہ فیصلے کر سکیں اور اپنے شہریوں کی بہتری کے لیے فنڈز استعمال کریں۔
ورلڈ بینک کے تازہ اعداد و شمار ایک کہانی سناتے ہیں ‘ دو پڑوسیوں کی کہانی‘ ایک جو ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دوسرا جو تیزی سے گر رہا ہے۔ دونوں’گلوبل ساؤتھ‘ (ترقی پذیر ممالک) کے لیے مثال قائم کر رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔
صرف ۱۱سالوں میں، بھارت دنیا کی۱۰ویں سے چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے ۔ یہ ایک شاندار کامیابی ہے ۔بھارت کی جی ڈی پی۲۰۲۴ سے ۲۰۲۵ (مفروضہ) تک دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ صرف ایک دہائی میں ۱۰۵ فیصد کی ترقی ہے۔اور ایسا اس لئے ممکن ہوا کیونکہ بھارت نے اپنی ترجیحات کا صحیح تعین کیا ہے ‘ جو اپنے قیام کے ۷۸ برسوں بعد بھی ہمسایہ ملک نہیں کر پایا ہے ۔