سرینگر//(ویب ڈیسک)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب پر مشتمل دریائی نظام میں شدید آبی قلت کے درمیان مشکل کھریف (گرمی کی فصلوں) کے سیزن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق، تربیلا (دریائے سندھ پر) اور منگلا (دریائے جہلم پر) ڈیمز میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے، جبکہ پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کی جانب سے چناب میں پانی کی فراہمی میں ’اچانک کمی‘ واقع ہوئی ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق۲جون۲۰۲۵ تک دریائے سندھ کے نظام (پنجاب کے اندر) میں پانی کی دستیابی گزشتہ سال کے مقابلے میں۳ء۱۰ فیصد کم ہو چکی ہے۔
۲جون کو پنجاب میں کل دستیاب پانی صرف ایک لاکھ۲۸ہزار۸۰۰کیوسکس تھا، جو گزشتہ سال اسی تاریخ کے مقابلے میں۱۴ہزار۸۰۰ کیوسکس کم ہے۔
جنوب مغربی مون سون کے آنے میں ابھی کم از کم چار ہفتے باقی ہیں، جس سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کھریف کی بوائی کا موسم جاری ہے، لیکن آبی قلت اور شدید گرمی سے آبپاشی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیمز میںزندہ ذخیرہ میں ۵۰ فیصد کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو پنجاب اور سندھ میں آبپاشی اور ہائیڈرو پاور جنریشن کے لیے اہم ہیں۔
پانی کی یہ شدید قلت کسانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کھریف کی بوائی کا موسم جاری ہے اور جنوب مغربی مون سون کے جون کے آخر تک پنجاب پہنچنے کا امکان نہیں۔ اس صورتحال میں شدید گرمی کے ساتھ آبپاشی کے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ مہینے پاکستان نے اس موسم گرما میں مجموعی طور پر ۲۱ فیصد پانی کی کمی کا تخمینہ لگایا تھا اور ڈیموں کے ذمہ داران اور آبپاشی کے نگران اداروں کو ذخائر سے پانی کے دانشمندانہ استعمال کی ہدایت کی تھی۔ اسلام آباد نے ملک کے دو اہم ڈیموں ، تربیلا اور منگلا ، کے زندہ ذخیرے میں ۵۰ فیصد پانی کی کمی کا بھی تخمینہ لگایا تھا، جو پاکستان کے صوبوں پنجاب اور سندھ میں آبپاشی اور ہائیڈرو پاور کی پیداوار کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
بگڑتی ہوئی اس صورتحال نے ہی شاید پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں گزشتہ ہفتے منعقدہ گلیشیئرز کے تحفظ کی کانفرنس میں اپنی تشویش کا اظہار کرنے پر مجبور کیا، جہاں انہوں نے بھارت کے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے فیصلے پر عالمی توجہ مبذول کرائی۔
پاکستان میں موجودہ آبی قلت کا ایک اہم محرک بھارت کا۱۹۶۰ کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ ہے، جو پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد عمل میں لایا گیا۔ یہ حملہ ۲۲؍ اپریل کو بیساران میدان میں ہوا جہاں دہشت گردوں نے سیاحوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ۲۵ ہندوستانی شہریوں اور ایک نیپالی شہری کی ہلاکت ہوئی۔
معاہدے کی معطلی کے ساتھ، بھارت نے پاکستان کے ساتھ تین دریاوں میں پانی کی سطح کے ڈیٹا کی شیئرنگ بند کر دی ہے۔ یہ اسلام آباد کے لیے بارشوں کے موسم میں تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بھارت کی جانب سے تین دریاوں میں پانی کی سطح میں اضافے کے بارے میں ابتدائی انتباہات پاکستان کو پنجاب اور سندھ کے کم اونچائی والے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بروقت نقل مکانی کی انتباہات جاری کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔