جموں//
آل جموں اینڈ کشمیر پنچایت کانفرنس (اے جے کے پی سی) نے پیر کے روز یونین ٹیریٹری میں بنیادی سطح کی جمہوریت کو بحال کرنے کیلئے یہ کہتے ہوئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا کہ پنچایت انتخابات میں تاخیر نے گاؤں کی سطح پر ’جمہوری خلا‘ پیدا کر دیا ہے۔
کانفرنس نے کہا کہ منتخب اداروں کے تحلیل ہونے کے ایک سال کے اندر پنچایتی راج اداروں (پی آر آئی ) کے انتخابات نہ کرانے کی وجہ سے فنڈز کا بہاؤ رک گیا ہے، جو دیہی علاقوں میں اہم ترقیاتی منصوبوں کے اجراء کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
اے جے کے پی سی کے صدر انیل شرما نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا’’انتخابات محض ایک رسم نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہیں۔ ان کے بغیر دیہی حکمرانی مفلوج ہو چکی ہے اور عام آدمی متاثر ہو رہا ہے‘‘۔
۳مارچ کو جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا تھا کہ حکومت تمام سطحوں پر بروقت انتخابات کو یقینی بنا کر پی آر آئیز اور شہری مقامی بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
۲۷ فروری کو، جموں و کشمیر مقامی اداروں کی پسماندہ طبقات کمیشن، جو ۱۱ جون۲۰۲۳ کو دیگر پسماندہ طبقات(او بی سی) کی نمائندگی پر تجرباتی مطالعہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، نے اپنی حتمی سفارشات حکومت کو پیش کر دیں، جس سے مقامی اداروں کے انتخابات کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
جموں و کشمیر میں میونسپل ادارے، پنچایتیں اور بلاک ڈویلپمنٹ کونسلیں ( بہ ڈی سیز) ایک سال سے زائد عرصے سے منتخب نمائندوں کے بغیر ہیں۔ میونسپلٹیز کی مدت اکتوبر،نومبر ۲۰۲۳ میں ختم ہو گئی تھی، جبکہ پنچایتیں اوربی ڈی سیز نے اپنی پانچ سالہ مدت ۹ جنوری۲۰۲۳ کو پوری کر لی تھی۔
پنچایت انتخابات میں مسلسل تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شرما نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پنچایت اوربی ڈی سی انتخابات کے لیے ایک واضح ٹائم لائن طے کرے۔ انہوں نے کہا’’یہ تاخیر نہ صرف جمہوری حکمرانی کے لیے ایک دھچکا ہے، بلکہ دیہی ترقی اور ضروری خدمات کی فراہمی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘ انہوں نے بنیادی سطح کی جمہوریت کو بحال کرنے اور دیہی علاقوں کے لیے مخصوص ترقیاتی فنڈز کو جاری کرنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اے جے کے پی سی لیڈر نے کہا’’ہمیں امید تھی کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہونے کے بعد پنچایت انتخابات بھی ہوں گے۔ بدقسمتی سے، ایسا نہیں ہوا‘‘۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ منتخب پنچایت اداروں کے عدم موجودگی کی وجہ سے دیہی ترقی شدید متاثر ہوئی ہے۔ ’’سڑکوں، بجلی، پینے کے پانی کی فراہمی اور راشن کی تقسیم سے متعلق منصوبے بہت سے علاقوں میں سست پڑ گئے ہیں یا مکمل طور پر رک گئے ہیں‘‘۔ شرما نے کہا کہ پنچایتوں کے تحلیل ہونے اور نئے انتخابات میں تاخیر نے گاؤں کی سطح پر ایک جمہوری خلا پیدا کر دیا ہے۔
شرما نے کہا’’انتظامیہ کو ذمہ داری لینا ہوگی اور دیہی عوام کے مفاد میں کام کرنا ہوگا جو ترقی، جوابدہی اور نمائندگی کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔
اے جے کے پی سی لیڈرنے حکومت کو ان کی دیرینہ مطالبے کی بھی یاد دہانی کرائی کہ ایک ریاستی الیکشن کمیشن قائم کیا جائے جو سیاسی اثر سے پاک ہو اور بروقت انتخابات کرانے کے قابل ہو۔