سرینگر//
پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ نے کشمیری پنڈتوں کی واپسی پر ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بغیر کوئی بھی سیاسی عمل مکمل نہیں ہے ۔
محبوبہ نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ جو کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کا الزام کشمیریوں پر لگایا جا رہا ہے اس کو دور کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کو سیاسی طور پر با اختیار بنانے کے لئے نامزدگی کے بجائے انہیں ریزرویشن دی جانی چاہئے ۔
سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار پیر کو یہاں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
پی ڈی پی کی صدر نے کہا’’میں نے آج لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے ساتھ ملاقات کی اور اس دوران انہیں ایک خط پیش کیا جس کی ایک کاپی عمر عبداللہ صاحب اور ایک کاپی وزیر داخلہ امیت شاہ صاحب کو بھی بھیج دی گئی اوراس خط میں تین اہم مدعوں کا تذکرہ کیا گیا ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے بغیر یہاں کوئی بھی سیاسی عمل مکمل نہیں ہے ‘‘۔
محبوبہ نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کی واپسی کو یقینی بنانا صرف سرکار کا کام نہیں ہے بلکہ لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے ۔محبوبہ نے کہا’’سال۲۰۲۰میں پارلیمنٹ میں وزارت امور داخلہ کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق۴ ہزار۹سو۵۱پنڈت کنبے کشمیر سے باہر ہیں جن میں سے کئی لوگ گھر واپس آنا چاہتے ہیں‘‘۔
اسابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا’’جو کشمیری پنڈت دل سے یہاں آنا چاہتے ہیں انہیں ان ضلعوں میں جہاں وہ رہتے تھے ، میں نصف کنال اراضی دی جانی چاہئے تاکہ وہ وہاں رہائشی ڈھانچے تعمیر کر سکیں، اور ان کا یہاں آنے کا سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہوجائے کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جو راتوں رات شروع ہوسکے ‘‘۔
محبوبہ نے کہا’’وزیر اعظم پیکیج کے تحت جو یہاں ملازمت کر رہے ہیں ان کی ٹرانسفر کا سلسلہ سخت ہے ہم چاہتے ہیں اس کو آسان بنایا جائے ایسا نہ ہو کہ جہاں وہ خوف محسوس کر رہے ہوں انہیں وہاں تعینات کیا جائے‘‘۔
پی ڈی پی صدر نے کشمیری پنڈتوں کو سیاسی طور با اختیار بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا’’کشمیری پنڈتوں کو سیاسی طور پر با اختیار بنانے کی ضرورت ہے ان کو نامزد کرنے کے بجائے ریزرویشن دی جانے چاہئے تاکہ وہ انتخابات میں خود کھڑا ہوکر لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے جا سکیں اس سے آپسی بھائی چارے کو مزید تقویت ملے گی‘‘۔
محبوبہ نے کہا’’میں نے اس کیلئے لیفٹیننٹ گورنر سے گذارش کی کہ وہ یہ معاملہ مرکز کے ساتھ اٹھائیں‘‘۔ان کا کہنا تھا’’لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ ملاقات کے دوران۳ جولائی سے شروع ہونے والی شری امرناتھ جی یاترا کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’پہلگام حادثے کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ حکومت شری امرناتھ جی یاترا کے لئے سیکورٹی رکھی گی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ محفوظ یاترا کو یقینی بنانے کے لئے کشمیری لوگوں کو بھی شامل کیا جائے ‘‘۔
محبوبہ نے کہا’’ہم چاہتے ہیں کہ کشمیری لوگ اسی طرح ان کی خدمت کریں جس طرح پہلے کرتے تھے ‘‘۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’تیسرا مسئلہ عید کے پیش نظر کشمیری نوجوانوں کی رہائی کا تھا جن کشمیری نوجوانوں کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمے نہیں ہیں ان کو رہا کیا جانا چاہئے اور جو باہر کے جیلوں میں بند ہیں ان کو کشمیر کے جیلوں میں منتقل کیا جائے تاکہ ان کے والدین ان سے مل سکیں‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا’’کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا مسئلہ ایک سنجیدہ اور انسانی مسئلہ ہے ہم پر جو الزام لگا ہے کہ ان کو کیوں یہاں سے نکلنے دیا گیا ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے اب کوئی کوتاہی نہ ہوجائے اور ہم اس الزام کو مٹا سکیں‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا’’میں نے عمر صاحب کو اس سے پہلے بھی ایک خط بھیجا انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا، وہ اپنے منڈیٹ کو خود ہی کمزور کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’جب وقف بل پر ہمارے ارکان اسمبلی ایک قرار داد لانا چاہتے تھے وہ اس وقت ٹیولپ گارڈن میں تھے۔‘‘