سرینگر//(یو این آئی)
گذشتہ ماہ سیاحتی مقام پہلگام میں پیش آنے والے سانحے کے بعد مرجھائے ہوئے شعبہ سیاحت کو دو بارہ تر وتازہ کرنے کیلئے جہاں جموں وکشمیر حکومت مختلف النوع اقدام کر رہی ہے وہیں اس شعبے سے جڑے تاجر و دیگر اسٹیک ہولڈز بھی اس گلستان کی رونق سر نو دوبالا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ان ہی کوششوں کی ایک اہم کڑی میں اس صنعت سے وابستہ تاجروں اور اسٹیک ہولڈرز نے کشمیر کی سیر کرنے والے سیاحوں کیلئے۵۰فیصد تک رعایت کا اعلان کیا ہے ۔
یہ اقدام۲۲؍اپریل کو پہلگام کی بائسرن وادی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد لئے جا رہے ہیں جس میں۲۵سیاحوں اور ایک مقامی باشندے کی جانیں گئی تھیں۔ اس واقعے نے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا دیا جس کے نتیجے میں سیاحوں کی آمد میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی، جس سے خطے کی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
سیاحوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کیلئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پہلگام اور گلمرگ میں یکے بعد دیگرے دو کابینی میٹنگوں کا انعقاد کیا۔
ان میٹنگوں کا مقصد عوام کو یہ یقین دلانا بھی تھا کہ کشمیر سیاحوں کے لئے محفوظ ہے اورکشمیری ان کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں۔
حکومت کی کوششوں کی سراہنا کرتے ہوئے اس صنعت سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز بھی اس کی بحالی کی حمایت کے لیے قدم بڑھا رہے ہیں۔
کشمیر ہوٹلیرز کلب کے سکریٹری طارق غنی نے یو این آئی کو بتایا’’کشمیر، جموں، لداخ اور کرگل کے ٹور آپریٹرز نے متفقہ طور پر سیاحوں کو واپس لانے کیلئے۵۰فیصد تک رعایت دینے پر اتفاق کیا ہے ‘‘۔
غنی نے کہا’’رعایت سیاحت سے جڑے تمام متعلقین کی طرف سے دی جارہی ہے خواہ وہ ہوٹل مالکان ہوں، ہاؤس بوٹ مالکان ہوں، ٹرانسپورٹرز ہوں، یا دیگر خدمات فراہم کرنے والے ہوں‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’گرچہ ہم نے۵۰فیصد تک رعایت دینے پر اتفاق کیا ہے تاہم حتمی شرح کا فیصلہ ہر تاجر انفرادی طور پر کرے گا‘‘۔
خطے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے ملک بھر سے ٹور آپریٹرز کا ایک ۶۰رکنی وفد کشمیر پہنچا ہے تاکہ اس تباہ حال صنعت کو بحال کرنے کے طریقہ کار کو تلاش کیا جا سکے ۔
مہاراشٹرہ نشین ابھیجیت پاٹل کی قیادت میں اس وفد نے منگل کے روز وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے ساتھ بھی ملاقات کی۔
پاٹل نے بتایا’’بائسرن حملے سے ایک گہرا زخم لگ گیا ہے ،یہ زخم بحال ہونے میں کافی وقت لگے گا‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم کسی کو سفر کرنے پر مجبور تو نہیں کر سکتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ مثبت سرگرمیاں انجام دینے اور یہاں موجود ہونے سے ایک مثبت اور امید افزا پیغام جائے گا‘‘۔
اس بیہمانہ حملے سے گرچہ پوری وادی میں گہرے اثرات محسوس کیے گئے ہیں، لیکن جن کی روزی روٹی کا براہ راست انحصار سیاحت پر ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ہے ۔ شکارا آپریٹرز اور ٹیکسی ڈرائیوروں سے لے کر ہوم اسٹے کے مالکان اور چھوٹے دکانداروں تک، معاشی نقصان تباہ کن رہا ہے ۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بدھ کے روز صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت متاثرین کے لئے ایک امدادی پیکیج پر کام کر رہی ہے ۔
عمرعبداللہ نے کہا’’حالیہ برسوں میں سیاحت پر انحصار کرنے والے لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ اگرچہ بڑے کاروبار بھی مندی کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن چھوٹے کاروباری جیسے شکارا آپریٹرز، ٹیکسی ڈرائیورز، اور ہوم اسٹے کے مالکان کو فوری مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کے لیے روزانہ کی کمائی کا مطلب روزانہ کی بقا ہے ۔ ہم ان کی مدد کے لیے ایک امدادی پیکیج پر کام کر رہے ہیں۔‘‘