سرینگر//(ویب ڈیسک)
ایک اہم پیش رفت میں‘ وفاقی وزارت داخلہ اور لداخ کے رہنماؤں نے لداخ میں ڈومیسائل حیثیت کے لیے۲۰۱۹ سے نافذ العمل ۱۵سال کی متوقع رہائش کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
اس معاہدے کو ’بڑی کامیابی‘ قرار دیا گیا۔ یہ ملاقات دہلی میں شمالی بلاک میں وزیر مملکت برائے داخلہ نتیا نند رائے کی صدارت میں ہوئی۔
اس معاہدے کو وزارت داخلہ کے تشکیل دیے گئے ہائی پاورڈ کمیٹی کے اجلاس کی ’بڑی کامیابی‘قرار دیا گیا ہے۔
نئی دہلی میں پریس کانفرنس کے دوران لہیہ ایپکس باڈی(ایل اے بی) کے شریک صدر چیرنگ ڈورجے لکرک نے کہا’’یہ ایک مثبت اقدام ہے کہ ہم آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ گئے ہیں۔ ڈومیسائل کا مسئلہ کافی عرصے سے زیر التوا تھا۔ آج کا فیصلہ ایچ پی سی اجلاس کی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ ۔
لکرک نے کہا’’ ہم نے لداخ میں ۳۰ سال کی مسلسل رہائش کو ڈومیسائل حیثیت کے معیار کے طور پر زور دیا۔ حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس مطالبے کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی اور اگلے ماہ ہونے والی میٹنگ میں جواب دے گی‘‘۔
لداخ کے رہنماؤں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے بھی یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ۳۰ سال کے رہائشی تقاضے کی ’مدت‘ کا جائزہ لینے کے لیے قانون کی وزارت اور قانونی ماہرین سے مشورہ کرے گا… یہ ایک اہم مطالبہ تھا جو کہ لہہ کی ایپکس باڈی اور کرگل جمہوری اتحاد (کے ڈی اے) نے ملاقات کے دوران پیش کیا۔
کرگل کے رہنما سجاد کرگلی نے کہا’’موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمارے رہنما ایل اے بی اور کے ڈی اے نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔ دونوں گروپوں نے آج کے اتفاق رائے کے لیے لچک دکھائی۔ ’’ہم نے ۲۰۱۹ سے۱۵ سال کے مسلسل رہائش پر اتفاق کیا۔ تاہم، ہم نے ۳۰ سال کی ڈومیسائل پالیسی کے اپنے مطالبے کو دہرایا، جس کا قانونی جائزہ لینے پر وزارت داخلہ نے اتفاق کیا۔ ہم اگلی ملاقات میں دیگر اہم مسائل پر بھی بحث کی توقع کرتے ہیں، جیسے کہ علیحدہ پبلک سروس کمیشن(پی ایس سی) ریاست کا درجہ، اور چھٹے شیڈول کے تحت شمولیت‘‘۔
تھپستاں چیوانگ، چیئرپرسن ایل اے بی نے ایچ پی سی کے اجلاس کے نتائج کو ’تاریخی موقع‘ قرار دیتے ہوئے کہا جہاں انہوں نے ایک ’بڑی پیش رفت‘ حاصل کی۔
ان کاکہنا تھا’’ہم لداخ کے شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) طلباء کے لیے زیادہ سے زیادہ سیٹوں کو شمال مشرق اور دیگر مقامات کے طرز پر محفوظ کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ اس خاص موضوع پر بحثیں جاری تھیں اور ہم خوش ہیں کہ ہندوستان کی حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں مہربان رہی۔ ہم ہندوستان کی حکومت، خاص طور پر وزیر اعظم، یونین ہوم منسٹر، ایچ پی سی کے چیئرپرسن اور دیگر اراکین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مسئلے کو حل کیا‘‘۔
سابق وزیر اور ایک اے بی کے رکن ‘نوانگ ریگزن جورا نے کہا’’زیادہ تر نوکریاں غیر گزیٹیڈ کیٹیگری میں پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ غیر گزیٹیڈ نوکریاں پہلے ہی ۱۰۰ فیصد لداخ کے رہائشی سرٹیفکیٹ کے حاملین کے لیے محفوظ ہیں، ہمیں گزیٹیڈ عہدوں کی جے کے پی ایس سی یا یو پی ایس سی کے ذریعے بھرتی ہونے پر تشویش تھی۔ نیا انتظام یقینی بناتا ہے کہ تقریباً۹۵ فیصد نوکریاں مقامی لوگوں کے لیے محفوظ ہوں گی اور۱۰ فیصد ای ڈبلیو ایس کے لیے جبکہ باقی۵ فیصد دوسرے لداخ کے رہائشیوں کے لیے کھلی ہوں گی‘‘
جورا کامزید کہنا تھا’’کسی بھی بھرتی ایجنسی بشمول یو پی ایس سی اب بھرتی میں خاص فرق نہیں ڈالے گی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے مرکز سے درخواست کی کہ دہلی، اینڈامن اور نکوبار جزائر، لکشدیپ‘ دمن اور دیو اور دادرا اور نگر ہیولی (سول) سروسزکو لداخ یو ٹی میں نہیں بڑھایا جائے۔
ان کامزید کہنا تھا’’ہم نے مرکز سے کہا کہ وہ لہیہ کے لیے ایک علیحدہ انتظامی کیڈر بنائے یا اسے جمو ںو کشمیر کے کیڈر میں ضم کرے۔ اب، اس بات کے امکانات ہیں کہ مرکز ہماری علیحدہ انتظامی اور پولیس خدمات کے لیے لہیہ کے مطالبہ پر اگلی میٹنگ میں مثبت غور کر سکتا ہے۔
ایل اے بی اور کے ڈی اے کے رہنماؤں کی مرکزی وزارت داخلہ کے ساتھ آخری باضابطہ میٹنگ ۱۵جنوری کو ہوئی۔ پچھلے میٹنگ جو کہ پہلے ۱۵ فروری کے لیے تجویز کی گئی تھی، وہ انجام نہیں پا سکی، مرکزی وزارت داخلہ نے بتایا کہ وہ بعض اہم مسائل پر کسی واضح اتفاق رائے پر پہنچنے کے لیے بیک چینل مذاکرات کا انتخاب کر رہی ہے قبل اس کے کہ کوئی اعلان کیا جائے۔