’سیاحتی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے وادی کے لوگوں کو خود سب سے پہلے سیاحتی مقامات کا رخ کرنا چاہیے‘
گلمرگ//(ایجنسی/مشرق خبر)
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے واضح کیا ہے کہ۲۲؍اپریل کو پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے باوجود ریاستی درجہ کی بحالی پر بات چیت کا عمل رکا نہیں ہے ۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ نیتی آیوگ کی حالیہ گورننگ کونسل میٹنگ میں انہوں نے یہ مسئلہ وزیر اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کے سامنے واضح طور پر اٹھایا۔
گلمرگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا،ریاستی درجے کی بحالی ناگزیر ہے ۔انہوں نے کہا’’اگر آپ نیتی آیوگ میٹنگ میں رسمی تقریر کو دیکھیں گے تو اس میں ریاستی درجہ کی بحالی کا واضح ذکر موجود ہے ، جو وزیر اعظم اور گورننگ کونسل کے تمام اراکین کو پیش کی گئی‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے اس تاثر کو رد کیا کہ پہلگام حملے کے بعد ریاستی درجہ سے متعلق بات چیت رک گئی ہے ۔ ان کے مطابق’’بات چیت جاری ہے ۔ میں نے صرف یہ فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں ریاستی درجہ کا ذکر نہ کیا جائے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معاملہ بند ہو گیا ہے ‘‘۔
عمر عبداللہ نے گلمرگ میں اعلیٰ حکام کے ساتھ سیاحتی ترقی سے متعلق اجلاس کی صدارت بھی کی، جس میں انہوں نے زور دیا کہ وادی کشمیر کے باشندوں کو خود سب سے پہلے ان سیاحتی مقامات کا رخ کرنا چاہیے تاکہ معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا پیغام دیا جا سکے ۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’میں نے وزیر تعلیم سے کہا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کے لیے تفریحی دوروں کا اہتمام کیا جائے تاکہ نوجوان نسل ان مقامات سے دوبارہ جڑ سکے ‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ریاست کے مختلف مقامات پر کابینہ اجلاس منعقد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو تحفظ اور اعتماد کا پیغام ملے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک و بیرونِ ملک کے سیاحوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ کشمیر سیاحت کے لیے تیار ہے ۔
پہلگام حملے میں۲۶سیاحوں کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کشمیر کے لوگوں کو اس واقعے کے لیے موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے ۔
وزیر اعلیٰ کے مطابق یہ حملہ کشمیری عوام نے نہیں کیا، نہ ان کی مرضی سے ہوا، نہ ان کے فائدے کے لیے ۔ لیکن اگر اس کے ردعمل میں کشمیری عوام کو بائیکاٹ کا نشانہ بنایا جائے تو ہم کیا کریں؟ اس لیے مرکز کو چاہیے کہ وہ اس واقعے کی سنجیدہ تحقیقات کرے اور غلط معلومات پر مبنی مہم کو روکے ۔
عمرعبداللہ نے انکشاف کیا کہ کابینہ نے حملے کے متاثرین کی یاد میں ایک یادگاری مجسمہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جس کے لیے محکمہ تعمیرات عامہ کو ڈیزائن طلب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ ڈیزائنز آنے کے بعد اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے یاد دلایا کہ موجودہ صورت میں جموں و کشمیر ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے ، اور امن و قانون کی ذمہ داری ریاستی حکومت کے بجائے لیفٹیننٹ گورنر کی ہے ۔
جموںکشمیر کے وزیرا علیٰ نے واضح کیا کہ سیاحوں کی سکیورٹی اس وقت ریاستی حکومت کے ہاتھ میں نہیں بلکہ راج بھون کے تحت آتی ہے ۔ ہم سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں، بنیادی ڈھانچہ مہیا کر سکتے ہیں، لیکن سیاحوں کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے مرکز، ریاستی حکومت اور راج بھون تینوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ منتخب حکومت اور راج بھون کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلقات میں جمود کی بات تب کی جاتی ہے جب وہ واقعی منجمد ہوں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔