سرینگر/۰۲مئی
حکومت ہند نے پاکستان کے ساتھ انڈس واٹر ٹریٹی (آئی ڈبیلو ٹی) کو عارضی طور پر معطل رکھنے کے فیصلے کے بعد شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں واقع طویل عرصے سے تعطل کا شکار تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ (ولر بیراج) کو دوبارہ بحال کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے ۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے وادی کشمیر میں پانی کی دستیابی، بجلی کی پیداوار اور نیوی گیشن کے شعبے میں نمایاں بہتری کی توقع ہے ۔
یہ منصوبہ، جو دریائے جہلم کے کنارے ولر جھیل کے دہانے پر سوپور کے نزدیک واقع ہے ، ابتدائی طور پر 1980 کی دہائی میں تجویز کیا گیا تھا تاکہ پانی کے بہا¶ کو منظم کیا جا سکے اور سرحدی علاقوں، خاص طور پر اوڑی میں واقع پن بجلی منصوبوں کے لیے مستقل آبی وسائل فراہم کیے جا سکیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اس پروجیکٹ کا تقریباً 90 فیصد کام 2016 تک مکمل ہو چکا تھا، تاہم پاکستان کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے سخت اعتراضات کے باعث کام روک دیا گیا۔
پاکستان نے اسے پانی ذخیرہ کرنے والا منصوبہ قرار دیا، جو معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ تاہم ہندوستان نے مستقل یہ م¶قف اختیار کیا کہ یہ محض ایک ‘نیوی گیشن لاک’ ہے جو آرٹیکل 9 کے تحت جائز ہے ۔
مرکزی حکومت اب اس پروجیکٹ کو ایک سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنی کے سپرد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہیں سے کام دوبارہ شروع کیا جا سکے جہاں یہ رُکا تھا۔ حکام نے بتایا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ سے تازہ ترین تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں تاکہ ایک مکمل بحالی منصوبہ تیار کیا جا سکے ۔
ایک سینئر افسر کے مطابق’ہم نہ صرف تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ بلکہ ان دیگر منصوبوں کو بھی بحال کرنا چاہتے ہیں جنہیں پاکستان کے اعتراضات کی وجہ سے روکا گیا تھا‘۔
تلبل منصوبہ 1984 میں مرکزی حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔ منصوبے کے تحت 439 فٹ لمبی اور 40 فٹ چوڑی بیراج تعمیر کی جانی تھی، جس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 0.30 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) تھی۔ اس کا مقصد بالخصوص خزاں اور سردیوں میں دریائے جہلم کے پانی کے بہا¶ کو برقرار رکھنا تھا جب پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے ۔
تاہم 1985 میں پاکستان کی جانب سے اعتراضات کے بعد کام روک دیا گیا اور 1986 میں اسلام آباد نے یہ معاملہ انڈس واٹر کمیشن میں اٹھایا، جس کے بعد 1987 میں تمام تعمیراتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل کر دی گئیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر تاج محی الدین نے 2010 میں اس منصوبے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ 2016 تک منصوبے پر 90 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا اور وہ بھی 1980 کی لاگت سے کافی کم خرچ پر۔ تاہم بعد کی حکومت نے اس منصوبے کو بغیر کسی وجہ کے بند کر دیا۔
تقریباً دو برس بعد نامعلوم دہشت گردوں نے اس پروجیکٹ کے لیے تعمیر کردہ باندھ پر گرینیڈ سے حملہ کیا، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
تاج محی الدین نے یو این آئی کو بتایا”یہ منصوبہ کشمیر کے مفاد میں ہے ، اسے منطقی انجام تک ضرور پہنچنا چاہیے “۔
اوڑی میں قائم تین پن بجلی منصوبے گرمی میں تو مکمل صلاحیت کے ساتھ کام کرتے ہیں، مگر سردیوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے ان کی پیداوار 20 فیصد سے بھی کم ہو جاتی ہے ۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ تلبل بیراج ان موسمی اتار چڑھا¶ کو متوازن بنانے میں مدد دے گا، جس سے سال بھر بجلی کی پیداوار ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔
تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ کی بحالی کشمیر کے لیے نہ صرف اقتصادی لحاظ سے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے بلکہ یہ انڈس واٹر ٹریٹی پر نئی سفارتی سمت کا بھی اشارہ ہے ۔ حکومت ہند کا موجودہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اب معاہدے کے یکطرفہ نفاذ سے تنگ آ چکی ہے اور ملک کے مفادات کو ترجیح دینے کے لیے تیار ہے ۔
اگرچہ پاکستان مسلسل اس م¶قف پر قائم ہے کہ تلبل اسٹرکچر ایک ذخیرہ آب ہے جو انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتا ہے ، لیکن نئی دہلی کا م¶قف ہے کہ یہ ایک ’نیویگیشن لاک‘ہے جس کا مقصد سال بھر آبی نقل و حمل اور پانی کے بہا¶ کو منظم رکھنا ہے ، اور یہ معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بالکل جائز ہے ۔
یہ منصوبہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان برسوں جاری رہنے والے جامع مذاکرات کے آٹھ کلیدی موضوعات میں شامل تھا، تاہم طویل گفت و شنید کے باوجود اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔