تحریر:ہارون رشید شاہ
لو جی اپنے اجیت ڈوول صاحب بھی بول پڑے ہیں… وہ کیا ہے کہ یہ جناب کم بولتے ہیں … یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ …کہ یہ جناب کچھ بولتے ہی نہیں ہیں… یقینا ان کے منہ میں بھی زبان ہے‘ لیکن کہنے والوںکاکہنا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر کہنے سے زیادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور… اور انہیں جو کرنا ہو تا ہے وہ یہ جناب کر گزرتے ہیں… بغیر کچھ بولے کرگزرتے ہیں … اسی لئے تو … تو ہمیں ان کی زیادہ باتیں سنائی نہیں دیتی ہیں اور … اور بالکل بھی نہیں سنائی دیتی ہیں۔ ڈدول صاحب کاکہنا ہے کہ ۲۰۱۹ کے بعد کشمیر اور کشمیریوں کا مزاج بدل گیا ہے… دونوں بدل گئے ہیں… کیا واقعی ایسا ہے ؟جواب ہم نہیں جانتے ہیں‘ لیکن…لیکن اگر ڈوول صاحب ایسا کہتے ہیں تو یقینا ایسا ہی ہو گا … پر …پر مزہ تو تب آئے گا جب ڈوول صاحب کا ہمسایہ ملک بھی بدل جائیگا … جس کے بارے میں قومی سلامتی کے مشیر کاکہنا ہے کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتا ہے… لیکن …لیکن دہشت گردی کے ساتھ سمجھوتہ کئے بغیر ‘ اسے برداشت کئے بغیر ۔ اگر ۲۰۱۹ کے بعد کشمیر اور کشمیری بدل گئے ہیں تو … تو یہ یقینا ڈوول صاحب کیلئے ایک خوشخبری ہے ‘ لیکن… لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ان جناب کا ہمسایہ ملک بھی بدل جائے تو… تو کیا کہنے۔ وہ کیا ہے کہ … کہ ملک کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا … اچھا اچھا نہیں ‘ بلکہ برا برا جو کچھ بھی ہو رہا ہے … وہ ڈوول صاحب کے ہمسایہ ملک کی وجہ سے ہورہا ہے… اور گزشتہ ۳۳ برسوں سے ہو رہا ہے… اگر ملک کشمیر میں یہ سب کچھ نہ ہوتو… تو ملک کشمیر واقعی میں سورگ بن جائیگا … جنت بن جائیگا کہ … کہ جو سیاح یہاں آکر کشمیر کو جنت کہہ رہے ہیں… جھوٹ کہہ رہے ہیں کہ… کہ اگر یہ جنت ہوتا تو… تو یہاں سکون ہوتا‘ چین ہو تا‘ امن ہوتا … خوشحالی ہو تی … تحفظ ہو تا … لیکن یہ سب کچھ یہاں نہیں ہے اور… اور اس لئے نہیں ہے کیونکہ کشمیر اور کشمیریوں کا مزاج تو بدل گیا ہے…جیسا کہ ڈوول صاحب کو یقین ہے… لیکن ان کے ہمسایہ ملک کا مزاج بدل رہا ہے اور…اور نہ وہ خود بدل رہا ہے… اور یہی ڈوول صاحب کے ہمسایہ ملک کا سچ ہے ۔ ہے نا؟