غیر حاضر ڈاکٹروں کے خلاف حکومت کی کارروائی ضرورت بھی اور وقت کا تقاضہ بھی ہے۔ یو ٹی کا شعبہ صحت اس حوالہ سے جب خود بیمار پڑا ہو تو لوگوں کی بیماریوں کا علاج ممکن کیونکرہو۔یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ حالیہ برسوں میں صحت عامہ کو جدید ترین خطوط پر استوار کیاگیا جہاں طبی نگہداشت ،تشخص اور دیگر سہولیات کے حوالہ سے پیش قدمی کی گئی جس کے نتیجہ میں تشخیص اور نگہداشت کے شعبوں میں خاطرخواہ حد تک بہتر ی آگئی ہے۔
لیکن اس کے باوجود عوام شاکی ہیں کیونکہ ان کاکہنا ہے کہ علاج ومعالجہ کے حوالہ سے انہیں کافی مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ریاست کے سرکاری ہسپتالوں اور طبی مراکز پر مریضوں کا بھاری رش ہے، ادویات بھی دسیتاب نہیں جیسا کہ یو ٹی کا شعبہ صحت مسلسل دعویٰ کرتا رہتا ہے اور اگر ادویات دستیاب ہیں تو ان کی اکثریت غیر موثر اور غیر معیاری ہے۔ اس تعلق سے اب تک یو ٹی کی میڈیکل کارپوریشن ادویات کی خرید وفروخت اور تقسیم کاری کے حوالہ سے کئی بار شکنجہ میںآئی ہے بلکہ کچھ ایک سکینڈل بھی ماضی قریب میں منظرعام پر آئے تھے جنہیں ماضی کے حکمرانوں نے اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کیلئے داخل دفتر کردیا۔
جہاں تک ڈاکٹروں کی مطلوبہ تعداد کا تعلق ہے تو یہ تناسب بڑھتاہی جار ہاہے ۔ ایک ڈاکٹر کاتقریباً ایک ہزار مریضوں کیلئے دسیتابی سے از خود ریاست کے شعبہ صحت کی کسمپرسی اور بیماری کا پتہ چلتا ہے۔مریضوں کی ضروریات کیا ہیں فی الوقت اس کو حاشیہ پر رکھ کر یو ٹی کیلئے یہ ناگزیر بن چکا ہے کہ حکومت ڈاکٹروں کی کمی پر قابو پانے کی کوشش کرے اور وہ سارے اقدامات اُٹھائے جواس تعلق سے اب وقت کا تقاضہ ہیں اور ضرورت بھی۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یو ٹی باالخصوص کشمیرسے ڈاکٹروں کی ایک اچھی خاصی تعداد سرکاری نوکریوں کو اپنے گلے میں لٹکا کر بیرون ممالک خدمات انجام دینے کیلئے کسی نہ کسی بہانے راہ فرار حاصل کرنے میںکامیاب ہوجاتی ہے۔ کوئی سیاسی اثرورسوخ کے بل پر تو کوئی بیروکریسی سے قربت کی بناء پر بیرون ملک جانے میںکامیاب ہورہاہے۔ قصور ان ڈاکٹروں کا نہیں ہے بلکہ اس سسٹم کا ہے جویو ٹی میںاب ایک عرصہ دراز تک رائج رہا اور جس سسٹم میںکوتاہیاں اور خامیاں موجود تھیں جس کا فائدہ اُٹھاکر ڈاکٹر باہر جانے کیلئے راستہ ہموار پارہے تھے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اس مروج سسٹم کو ٹھیک کیاجائے اور اس میں جتنی بھی خامیاں اور کمزوریاں ہیں انہیں ختم کردیاجائے۔ جو ڈاکٹر بیرون ممالک پریکٹس کرنے کیلئے چلے گئے ہیں ان کی واپسی کی اُمید نہیں کیونکہ جن ممالک میںیہ ڈاکٹر پریکٹس کررہے ہیں وہاں پیسہ کی فراوانی ہے، انہیںمتعدد سہولیات میسر ہیں۔ لہٰذا ایسے ڈاکٹروں کی سروسز کو ختم کرنے سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔البتہ یہ صحیح ہے کہ اسامیاں دستیاب ہوجائینگی جن پر نئے ڈاکٹروں کی بھرتی کا ایک راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹروں کی تربیت پر حکومت ہر سال کروڑوں روپے کے اخراجات برداشت کررہی ہے۔ باالخصوص تقریباً ان پچاس فیصد ڈاکٹروں پر جو مختلف زمروں کے تحت تربیت کیلئے منتخب ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان ڈاکٹروں کیلئے اگر یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ علاقوں میںکم سے کم ۲،۳ سال تک خدمات انجام دیں لیکن اس پابندی کا حترام ڈاکٹر کررہے ہیں اور نہ ہی سرکار! اسی طرح اوپن میرٹ کے زمرے میں سلیکشن کے بعد جو ڈاکٹر بن جاتے ہیں وہ سرکاری نوکری پاتے ہی اُڑان پھرنے کیلئے پر تولنے شروع کردیتے ہیں۔ صحت عامہ کے حوالے سے اسی پالیسی میںبہت ساری بُنیادی خامیاں موجود ہیں جن پر قابو پانے کی فوری ضرورت ہے۔
تربیت حاصل کرکے سرکاری ملازمت پانے والے ڈاکٹروں کیلئے لازمی ہونا چاہئے تھا کہ وہ کم از کم دس سال تک یو ٹی میں خدمات انجام دیں، دوسری صورت میں باہر جانے والے خواہشمند ڈاکٹروں سے وہ سارا پیشہ واپس وصول کیاجائے جو ان کی تربیت پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ پالیسی کا اہم جز ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیںہے۔ اسی طرح مختلف زمروں کے تحت سلکٹ ہونے والے ڈاکٹروں کیلئے یہ لازمی ہونا چاہئے کہ وہ ان علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیں جن علاقوں سے زمروں کی سند پیش کرکے سلیکشن کے حقدار قرار پاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس کا مسئلہ بھی کسی دردسر سے کم نہیں۔ بہت سارے ڈاکڑ اپنے شعبوں کی وساطت سے نان پریکٹس الائونس حاصل کررہے ہیں لیکن ان میںسے اکثرڈاکٹر چوری چھپے اور کھلے عام پرائیوٹ پریکٹس کررہے ہیں۔ اس تعلق سے یو ٹی کی کوئی ٹھوس اور ناقابل مزاحم پالیسی نہیںہے۔اس پالیسی کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس کی بُنیاد ہوا کے دوش پر رکھی گئی ہے۔
سرکاری ڈاکٹروں کی اچھی خاصی تعداد نجی سیکٹر میں قائم ہیلتھ کلنکوں، منی ہسپتالوں اور دوسرے صحت کے مراکزسے وابستہ ہے۔ سرکاری سطح پر خدمات انجام دیتے وقت ان کی ناک بھنویں چڑھی رہتی ہیں لیکن پرائیوٹ کلنکوں میںنجی پریکٹس کے دوران ان کا رویہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ڈاکٹروں کا یہ طرزعمل اس تاثر کو اور زیادہ مستحکم کرہاہے کہ ڈاکٹروں کی اکثریت علاج نہیں کاروبار میںدلچسپی رکھتی ہے۔ یہ اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر خلوص، دیانتداری، جواب دہی اور شفافیت کا بول بالا ہو اور سسٹم انہی خطوط پر مستحکم ہو تو لوگوں کو زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوگا۔
صحت عامہ کے شعبے میں گذرے برسوں کے دوران جو خرابیاں، کمیاں، کوتاہیاں سرائیت کر چکی ہیں انہوںنے سسٹم میںاپنی جڑیں مستحکم کرلی ہیں۔یو ٹی انتظامیہ نے ۱۱۲؍ غیر حاضر ڈاکٹروں کو سرکاری ملازمت سے فارغ تو کردیا ہے ‘ لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ‘بلکہ ان خامیوں اور کاتاہیوں کی جڑ تک پہنچ کر انہیں دور کرنا سے ہی وے ٹی کا شعبہ صحت ‘ صحت مندانہ خطوط پر استوار ہو گا ۔