نئی دہلی/۱۷اپریل
سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر جواب داخل کرنے کےلئے مرکز کو جمعرات کو ایک ہفتہ کا وقت دیا۔
سپریم کورٹ نے مرکز کی اس یقین دہانی کا ذکر کیا کہ سماعت کی اگلی تاریخ تک وقف بشمول ’صارف کے ذریعہ وقف‘، جسے نوٹیفکیشن کے ذریعہ اعلان کیا جاتا ہے یا رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، کو نہ تو ڈی نوٹیفائی کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے کردار کو تبدیل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ مرکز نے بیان دیا کہ وقف کونسل یا وقف بورڈ میں کوئی تقرری نہیں کی جائے گی۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کو دوپہر دو بجے معاملے کی سماعت دوبارہ شروع کی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ 5 مئی سے شروع ہونے والے ہفتہ میں مقرر کی ہے جب تک اس قانون کی مخالفت کرنے والے مرکز، ریاستوں اور درخواست گزاروں کے جواب داخل نہیں کیے جائیں گے۔ عدالت نے پانچ درخواستوں کو مرکزی درخواستوں کے طور پر منتخب کرنے کی ہدایت کی جن کا فیصلہ درخواست گزار کریں گے۔
سپریم کورٹ نے 1995 اور 2013 کے وقف قوانین کو چیلنج کرنے والے ہندو فریقوں کی طرف سے دائر مقدمات کو الگ الگ کردیا۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ 2025 ایکٹ کو چیلنج کرنے والی تمام پانچ درخواستوں کو ایک مشترکہ عنوان’ان ری: وقف ترمیمی ایکٹ 2025″ کے تحت درج کیا جائے گا۔
چہارشنبہ کے روز سپریم کورٹ کی بنچ نے اس قانون پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے قانون کے تین پہلوو¿ں پر سوال اٹھایا ہے جن میں عدالت کے سابقہ احکامات کے تحت اعلان کردہ ’صارف کے ذریعہ وقف‘ جائیدادوں کی حیثیت، وقف کونسل اور وقف بورڈمیں غیر مسلم ممبروں کی اکثریت کی موجودگی اور سرکاری پلاٹ کے طور پر متنازعہ جائیداد کو وقف املاک کے طور پر کام کرنے سے روکنا شامل ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ان پہلوو¿ں پر قانون کے نفاذ کو روکنے کے لئے ایک عبوری حکم جاری کرنے کے لئے تیار ہے۔ حالانکہ بنچ نے مرکز اور ریاستوں کو جمعرات کو ایک موقع دینے پر اتفاق کیا، جب اس معاملے کی اگلی سماعت ہونی ہے۔
سپریم کورٹ نے بدھ کو نئے وقف ترمیمی قانون کے خلاف تقریبا 73 عرضداشتوں پر سماعت کرتے ہوئے کئی نکات پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا اور ساتھ ہی کہاتھا کہ وہ اس قانون کی کچھ شقوں پر روک لگاسکتی ہے ۔
یہ امکان ظاہرکیاجارہاتھاکہ عدالت عظمی ،اس سلسلے میں اس قانون کی جوکچھ دفعات ہیں جن میں غیرمسلموں کی سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں نامزدگی اور وقف جائیدادوں کے تعلق سے کلکٹر ز کے رول کے بارے میں جو تنازعات ہیں ،اس پر روک لگاسکتی ہے ۔
عدالت عظمی کی تین رکنی بنچ نے اس سلسلے میں کل کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا تھا اور سماعت آج کے لیے ملتوی کردی تھی ۔دوران سماعت عدالت نے کہا تھاکہ وہ وقف قانون کے بارے میں آرڈر پاس کرسکتی ہے تاکہ اس میں متاثرہ پارٹی کے جوخدشات ہیں انھیں دورکیاجاسکے ۔
عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صدیوں پرانی وقف جائیدادوں کا رجسٹریشن ہو جن میں بہت ساری مساجد اور دوسری تاریخی عبادت گاہیں شامل ہیں ۔
سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ کیاوہ ہندو¶ں کی عبادت گاہوں اور ٹرسٹوں میں غیر ہندو¶ں کو نمائندگی دیں گے ۔چیف جسٹس نے تشار مہتہ سے پوچھا تھا کہ کیا مسلمان ہندوٹرسٹ کے ممبر بن سکتے ہیں ۔
اس سے قبل عرضی گزاروں کی پیروی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کوبتایاکہ“ وقف ایک مذہبی معاملہ ہے اور یہ اسلام کی روح سے وابستہ ہے ۔انھوں نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون غیر آئینی اور مسلمانوں کے مذہبی امو رمیں سراسر مداخلت ہے ۔انھوں نے عدالت میں دلیل دی کہ دیگر طبقات کے مذہبی اداروں میں مسلمانوں کی شرکت نہیں توپھر مسلمانوں اوقاف میں غیرمسلم ممبران کی موجودگی ضروری کیوں قراردی گئی ۔کلکٹر کوجج کا اختیار کیوں دیاگیا اور وہ اپنے ہی مقدمہ کا فیصلہ کیسے کریگا۔”
سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیتہ علماہند(مولانا ارشد مدنی )،کانگریس ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید،ڈی ایم کے ، مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی ، جمعیتہ علماہند کے صدر مولانا محمودمدنی ،سمستھ کیرالہ جمعیتہ علما،ممبران پارلیمنٹ منوج کمار جھا ،مہوا موئترا ،انڈین یونین مسلم لیگ ،عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان ،تمل اداکار وجے ،ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس اور دیگر درجنوں اہم شخصیات اور تنظیموں نے عرضیاں داخل کی ہیں ۔