سرینگر16/اپریل
نیشنل کانفرنس (این سی) کے سرپرست اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے نجی طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کی حمایت کی تھی اور یہاں تک کہ’اعتماد‘ میں لیے جانے کی صورت میں اس عمل میں مدد کرنے کے لیے تیار ہونے کا بھی اظہار کیا تھا۔
فاروق عبداللہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے دلت نے اپنی کتاب ’دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی‘ میں نیشنل کانفرنس کے رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”ہم (تجویز کو منظور کرنے) میں مدد کرتے۔ ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟“
جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو مودی حکومت نے 4 اگست 2019 کو اچانک ختم کر دیا تھا، جس نے سب کو حیران کر دیا تھا۔
اس سے چند گھنٹے قبل فاروق عبداللہ اور دیگر سرکردہ سیاسی اور دیگر رہنماو¿ں کو وادی میں نظربند کردیا گیا تھا اور کئی مہینوں تک نظربندی جاری رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دفعہ کو منسوخ کرنے سے کچھ دن پہلے فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمرعبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔
ہندوستان ٹائمز اخبار میں شائع ہونے والی کتاب کے اقتباسات کے مطابق اس ملاقات کا بھی ذکر ہے۔
”کیا ہوا…. کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا“۔سابق جاسوس چیف لکھتے ہیں۔
رپورٹ اور دلت کے دعوے پر نیشنل کانفرنس کے سیاسی مخالفین نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور فاروق عبداللہ پر دھوکہ دہی کا الزام لگایا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما التجا مفتی نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ فاروق عبداللہ نے جموں و کشمیر کے آئین کو معمول پر لانے اور اس کے بعد دھوکہ دہی کو معمول پر لانے میں مدد کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے بجائے کشمیر میں رہنے کا انتخاب کیا۔
پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا نے ایکس ایکس پر پوسٹ کیا”دولت صاحب فاروق عبداللہ کے پرجوش حامی ہیں جنہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح فاروق صاحب آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے دہلی کے غیر قانونی اقدام سے متفق تھے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے سے کچھ دن پہلے فاروق عبداللہ اور وزیر اعظم کے درمیان کیا بات چیت ہوئی تھی اس کے بارے میں پہلے سے ہی شکوک و شبہات تھے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ فاروق صاحب نے پارلیمنٹ کے بجائے کشمیر میں رہنے کا انتخاب کیا تاکہ جموں و کشمیر کے آئین کو معمول پر لانے اور اس کے بعد دھوکہ دہی کو معمول پر لانے میں مدد مل سکے“۔
جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون نے کہا کہ وہ اس انکشاف سے حیران نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا پر لون نے دولت کو فاروق عبداللہ کا ’قریبی ساتھی‘ اور’عملی طور پر بدلتی ہوئی انا‘ قرار دیا، جس سے سابق جاسوس کے دعوے کو کافی تقویت ملی۔
لون نے ایکس پر لکھا کہ ”دولت صاحب کی طرف سے آنے سے یہ انکشاف بہت قابل اعتماد ہے“۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ نیشنل کانفرنس اس انکشاف کو مسترد کر دے گی اور اسے ’ایک اور سازش‘ قرار دے گی اور پارٹی پر لگاتار’متاثرین کا کارڈ‘ کھیلنے کا الزام لگایا۔
پی سی کے سربراہ نے مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس کو 2019 میں تعاون کے لئے 2024 کے انتخابی چکر میں انعام دیا جا سکتا ہے۔
پوسٹ میں سجاد نے لکھا”…. میں فاروق صاحب کو یہ کہتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں کہ ہمیں رونے دیجئے ‘آپ اپنا کام کریں ‘ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ 2024، 2019 میں کی گئی خدمات کا انعام تھا۔ یقینا یہ قومی مفاد میں ہے“۔
نیشنل کانفرنس کے سابق رہنما اور سرینگر کے سابق میئر جنید مٹو نے بھی نیشنل کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مٹو”ایسا لگتا ہے کہ این سی کے بیگ سے ایک بار پھر کچھ گر گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بلی ہے“۔ مٹو نے کہا کہ کشمیر کے کمزور اور سادہ لوح لوگوں کےلئے ہمدردی!
فاروق عبداللہ کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا لیکن ان کی بیٹی صفیہ عبداللہ نے ایکس پر پوسٹ کیا”میں نے دلت پر کبھی بھروسہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ ایک جاسوس تھا جس کی وفاداری صرف اپنے آپ سے تھی۔ انہوں نے کبھی پرواہ نہیں کی کہ انہوں نے اپنی پچھلی کتابوں کے ساتھ کس کو بس کے نیچے پھینک دیا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا ”میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور انہوں نے ایک بار پھر سچ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔“ (ایجنسیاں)