نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے کانگریس کے راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی کے خلاف ان کے انسٹاگرام پوسٹ کیلئے درج ایف آئی آر کو خارج کر دیا ہے جس میں انہوں نے ’اے خون کے پیاسے بات سنو‘ کے عنوان سے ایک نظم پیش کی تھی ۔
سپریم کورٹ نے کہا ’آزادی اظہار رائے کے تحفظ کیلئے عدالتوں کو سب سے آگے ہونا چاہئے۔
جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھوئیان کی بنچ نے پرتاپ گڑھی کے خلاف کارروائی شروع کرنے میں گجرات پولیس کی حد سے زیادہ جوش و خروش کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جرم نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اظہار رائے پر پابندی ’معقول ہونی چاہئے، خیالی نہیں‘۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آئین کا آرٹیکل۱۹(۲) آرٹیکل۱۹(۱)کے تحت ضمانت دی گئی آزادیوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ خیالات اور خیالات کے اظہار کی آزادی کے بغیر آئین کے آرٹیکل۲۱ کے تحت دی گئی باوقار زندگی گزارنا ناممکن ہے۔’’ ایک صحت مند جمہوریت میں، مختلف خیالات کا مقابلہ جوابی تقریر کے ذریعے کیا جانا چاہیے، نہ کہ دباو کے ذریعے۔ ادب، جس میں شاعری، ڈرامہ، فلمیں، اسٹینڈ اپ کامیڈی، طنز اور آرٹ شامل ہیں، زندگی کو زیادہ بامعنی بناتے ہیں‘‘۔
سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا اور مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی ایکناتھ شندے کے بارے میں اپنے سیٹ پر انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس سے متعلق ایک بڑے سیاسی تنازعہ کے درمیان سامنے آیا ہے۔ کامرا کے سیٹ کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے جس کے بعد کامک اور ممبئی کھار کے مقام کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جہاں انہوں نے سیٹ پر توڑ پھوڑ کی تھی۔
دوسری طرف پرتاپ گڑھی کے خلاف۳ جنوری کو جام نگر پولیس اسٹیشن میں ایک وکیل کے کلرک نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی انسٹاگرام پوسٹ میں نظم نے بدامنی کو بھڑکایا اور سماجی ہم آہنگی کو متاثر کیا۔
گجرات ہائی کورٹ نے اس سے پہلے پرتاپ گڑھی کو قانون ساز کے طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پرتاپ گڑھی نے دعویٰ کیا کہ یہ نظم مشہور شاعر فیض احمد فیض یا حبیب جالب نے لکھی ہے۔ انہوں نے اپنے دعوے کی حمایت میں اے آئی ٹول (چیٹ جی پی ٹی) سے اسکرین شاٹس جمع کرائے۔ تاہم استغاثہ کا کہنا تھا کہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے ان کو سوشل میڈیا پر زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
گجرات ہائی کورٹ نے نظم کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ پوسٹ کرکے فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دینے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ کو منسوخ کرنے سے اس سال۱۷جنوری کو انکار کردیاتھا۔اس کے بعدپرتاپ گڑھی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
پرتاپ گڑھی کے خلاف۳جنوری کومقدمہ درج کیا گیا تھا۔ گجرات کی جام نگر پولیس نے ان کے خلاف مذہب، ذات پات کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے ، قومی یکجہتی کے لیے متعصبانہ بیانات دینے ، مذہبی گروہ یا ان کے عقائد کی توہین کرنے اور عوام یا دس سے زائد افراد کے گروہ کے ذریعے جرم کرنے کیلئے اکسانے سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔