سرینگر//(ویب ڈیسک)
چیف آف ڈیفنس سٹاف(سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے منگل کو کہا کہ پیشہ ور فوجی عارضی جانی نقصان سے متاثر نہیں ہوتی کیونکہ مجموعی نتائج ایسی مشکلات سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اعلیٰ فوجی کمانڈر نے کہا کہ پاکستان’ہزار زخموں سے چور کرنے‘ کی حکمت عملی اپنا رہا ہے، لیکن نئی دہلی نے آپریشن سندور کے ذریعے سرحد پار دہشت گردی کے خلاف بالکل نئی سرخ لکیر کھینچ دی۔
ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی میں خطاب کے دوران جنرل چوہان نے اس تنقید کو مسترد کرتے دکھائی دیے جو انہیں آپریشن کے ابتدائی مرحلے میں جنگی طیاروں کی غیرمتعدد تعداد کے نقصان کا اعتراف کرنے پر ہوئی تھی۔انہوں نے کہا’’جب مجھ سے ہمارے نقصان کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ یہ اہم نہیں ہیں۔ نتائج اور آپ کا ردعمل اہم ہیں‘‘۔
سی ڈی ایس نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا’’نقصان اور اعدادوشمار پر بات کرنا زیادہ مناسب نہیں ہوگا۔ جنگ میں، اگرچہ جھٹکے لگتے ہیں، لیکن اپنا مورال برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ نقصانات اہم نہیں، نتائج اہم ہیں‘‘۔
جنرل چوہان نے جنگ کے مختلف عناصر بشمول سیاست اور تشدد کو اجاگر کرتے ہوئے نوٹ کیا’’آپریشن سندور میں بھی جنگ اور سیاست متوازی طور پر چلنے والے مظاہر تھے‘‘۔
سی ڈی ایس نے پہلگام حملے سے چند ہفتے قبل پاک آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بھارت اور ہندوؤں کے خلاف ’زہر اگلنے‘ کا بھی تذکرہ کیا، تاکہ اس بات پر زور دیا جائے کہ اسلام آباد کی حکمت عملی ہمیشہ ’بھارت کو ہزار زخموں سے چور کرنے‘کی رہی ہے۔ انہوں نے کہا’’پہلگام میں جو کچھ ہوا وہ متاثرین کے ساتھ انتہائی سنگین ظلم تھا‘‘۔
آپریشن سندور کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان کی’ریاستی سرپرست دہشت گردی‘ کو روکنا ہوگا اور اس ملک کو بھارت کو دہشت گردی کا یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جنرل چوہان نے زور دیا’’بھارت دہشت گردی یا جوہری بلیک میل کے سائے میں نہیں جیے گا‘‘۔بھارتی فوجی قوت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بھارتی مسلح افواج نے پاکستانی اہداف پر’نہایت سوچے سمجھے اور صیحح نشانہ بازی‘کی۔ ان میں سے کچھ نشانے محض ’دو میٹر‘چوڑے تھے۔
جنگ بندی کے عمل کو سمجھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنی جوابی کارروائیوں کو۴۸ گھنٹے تک جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن وہ تقریباً آٹھ گھنٹے میں ہی سمیٹ لی گئیں۔ انہوں نے بھارتی حملوں کے اثرات کو نمایاں کرتے ہوئے کہا’’اور وہ (پاکستان) بات چیت کرنا چاہتے تھے‘‘۔
جنرل چوہان کے مطابق، پاکستان کا ۱۰ مئی کو بھارت سے بات چیت کا فیصلہ اس احساس سے پیدا ہوا کہ اگر اس کی کارروائی جاری رہی تو اسے ’زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا‘۔ انہوں نے تفصیل دی’’۱۰ مئی کی رات تقریباً ایک بجے، پاکستان کا ارادہ تھا کہ وہ متعدد حملوں کے ذریعے بھارت کو ۴۸ گھنٹے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔ پاکستان کی کارروائی جسے وہ ۴۸ گھنٹے تک جاری رکھنے کا سوچ رہا تھا، تقریباً آٹھ گھنٹے میں ہی ختم ہو گئی۔ اور انہیں بات چیت کی ضرورت محسوس ہوئی‘‘۔
جنرل چوہان نے تصدیق کی’’جب پاکستان کی طرف سے بات چیت اور کشیدگی میں کمی کی درخواست آئی تو ہم نے اسے قبول کیا‘‘۔
بھارت کی مجموعی حکمت عملی کے بارے میں انہوں نے واضح کیا’’ہم نے معیار بلند کر دیا ہے؛ ہم نے دہشت گردی کو پانی (دریاؤں) سے جوڑ دیا ہے، اور ہم نے دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی کی بالکل نئی لکیر کھینچ دی ہے۔‘‘