سرینگر//
حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ المعروف حضرت شاہ ہمدان کا۶۶۰واں سالانہ عرسِ مبارک منگل کے روز شہر خاص کے تاریخی علاقے خانقاہِ معلی میں مذہبی عقیدت، روحانی جوش اور تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔
اس موقع پر وادی کے اطراف و اکناف سے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی اور آستانہ عالیہ پر حاضری دے کر اپنی حاجات و دعاؤں کے لیے سربسجود ہوئے ۔
عرسِ مبارک کی تقریبات کا آغاز نمازِ ظہر کے بعد ہوا، جس میں خواتین، مرد، بزرگ، نوجوان، اور بچے بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔ فضاء درود و سلام اور منقبتوں سے معطر تھی، جب کہ علمائے کرام نے حضرت شاہ ہمدان(رح) کی حیاتِ طیبہ، دینی خدمات اور صوفیانہ تعلیمات پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔
مقامی انتظامیہ، محکمہ اوقاف، وقف بورڈ، اور خانقاہِ معلیٰ کے منتظمین نے زائرین کی سہولت کے لیے فول پروف انتظامات کیے تھے ۔ خانقاہ کے احاطے اور گرد و نواح میں صفائی، پانی، طبی امداد اور سیکورٹی کے لیے خاطر خواہ بندوبست موجود رہا۔
یو این آئی نمائندے کے مطابق زائرین صبح سے ہی آستانہ عالیہ کی طرف رخ کر رہے تھے ۔ روحانیت سے لبریز ماحول میں لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے رہے تھے ۔ کئی عقیدت مندوں نے عرسِ مبارک کو ‘روحانی تجدید ایمان’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت شاہ ہمدان ؒکے نقشِ قدم پر چل کر ہم انفرادی و اجتماعی فلاح حاصل کر سکتے ہیں۔
حضرت میر سید علی ہمدانیؒ۱۴ویں صدی کے معروف صوفی، مبلغ، مصلح، عالم دین اور فلسفی تھے ۔ آپ کا تعلق ایران کے ہمدان شہر سے تھا اور آپ سلسلہ کبرویہ کے عظیم بزرگ تھے ۔
حضرت شاہ ہمدانؒنے تین بار کشمیر کا سفر کیا۔ سب سے اہم اور طویل سفر۱۳۷۲ء میں ہوا جب وہ تقریباً ۷۰۰؍اہل علم، صوفیائے کرام، ہنرمندوں، قالین بافوں، خطاطوں، معماروں اور علما کے ساتھ کشمیر وارد ہوئے ۔
آپ کی آمد نہ صرف دینی نقطۂ نظر سے اہمیت کی حامل تھی بلکہ تمدنی، تہذیبی، اقتصادی اور علمی سطح پر بھی انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ آپ نے یہاں لوگوں کو صرف اسلام کی طرف مائل نہیں کیا بلکہ انھیں دستکاری، تجارت، قالین بافی اور دیگر فنون سکھائے ، جو آج بھی کشمیری ثقافت کا حصہ ہیں۔
حضرت شاہ ہمدان ؒنے اپنی تصانیف کے ذریعے دینی اور اخلاقی اصولوں کو عام کیا اور ان کی تعلیمات صدیوں سے کشمیری سماج کا روحانی سرچشمہ رہی ہیں۔
دریائے جہلم کے کنارے واقع خانقاہِ معلیٰ نہ صرف حضرت شاہ ہمدانؒ کی قیام گاہ اور تبلیغی مرکز تھی بلکہ آج بھی یہ جگہ کشمیر کے صوفی سلسلے کی علامت ہے ۔ یہ مقام آج بھی کشمیری عوام کے عقیدے اور روحانیت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے ۔
عرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کئی علمائے کرام نے کہا کہ کشمیر میں پائیدار امن، اخوت، اور سماجی ہم آہنگی کے لیے حضرت شاہ ہمدان ؒکی تعلیمات پر عمل ناگزیر ہے ۔ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ مادہ پرستی اور نفسانی خواہشات سے ہٹ کر روحانیت، خدمت خلق، اور اخلاص کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔