سرینگر//(ویب ڈیسک)
طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد سے افغانستان کو کافی اقتصادی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ کبیر حقمل کی ایک حالیہ ٹویٹر پوسٹ‘ جنہوں نے اس سے قبل حامد کرزئی حکومت کے ساتھ کام کیا تھا، ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں کتنے باصلاحیت پیشہ ور افراد کو غربت میں دھکیل دیا گیا ہے۔
حقمل نے ایک افغان صحافی موسیٰ محمدی کی تصویر شیئر کی۔ کیپشن میں، حقمل نے کہا کہ موسیٰ محمدی برسوں سے میڈیا کے شعبے کا حصہ تھے، تاہم، افغانستان میں اس قدر مخدوش معاشی صورت حال کے درمیان، وہ اب اپنا پیٹ بھرنے کیلئے روٹیاں بیچ رہے ہیں۔
حقمل نے ٹویٹ کیا ہے’’موسیٰ محمدی نے کئی سالوں تک مختلف ٹی وی چینلز میں بطور اینکر اور رپورٹر کام کیا، اور اب ان کے پاس اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کوئی آمدنی نہیں ہے۔ اور کچھ پیسے کمانے کے لیے اسٹریٹ فوڈ بیچتا ہے۔جمہوریہ کے خاتمے کے بعد افغان غیر معمولی غربت کا شکار ہیں‘‘۔
محمدی کی کہانی انٹرنیٹ پر وائرل ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے ڈائریکٹر جنرل احمد اللہ واثق کی توجہ بھی حاصل کی۔ اپنے ٹویٹ میں واثق نے ذکر کیا کہ وہ سابق ٹی وی اینکر اور رپورٹر کو اپنے محکمے میں تعینات کریں گے۔
جب ترجمہ کیا گیا تو ان کی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا گیا’’ایک نجی ٹیلی ویڑن سٹیشن کے ترجمان موسیٰ محمدی کی بے روزگاری سوشل میڈیا پر عروج پر ہے۔ حقیقت میں، نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے، میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی روزگاری کو یقینی بنائیں گے۔ نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے فریم ورک کے اندر ان کی تقرری کریں۔ ہمیں تمام افغان پیشہ ور افراد کی ضرورت ہے‘‘۔
دریں اثنا، جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، ملک انسانی اور معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے میڈیا آؤٹ لیٹس کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا ہے، جس میں گزشتہ چند مہینوں میں متعدد صحافیوں، خاص طور پر خواتین اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔
رائٹرز کے مطابق، ورلڈ بینک نے حال ہی میں کہا ہے کہ۲۰۲۱ کے آخری چار مہینوں میں فی کس آمدنی میں ایک تہائی سے زیادہ کمی آنے کے ساتھ افغانستان کی معیشت کا نقطہ نظر سنگین ہے۔
طوبیاس حق‘جو کہ ورلڈ بینک کے سینئر کنٹری اکانومسٹ برائے افغانستان نے کہا’’ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک بہت زیادہ غریب ہو گیا ہے۔‘‘