جموں/۴ مارچ
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور بی جے پی قانون سازوں کے درمیان لفظی جھڑپ کے بعد منگل کو کہا کہ کشمیر کے منقسم حصوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے کیونکہ چین کی جانب سے پاکستان کی حمایت کے باوجود سرحد پار صورتحال بہت خراب ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ہر حصہ بہت ترقی یافتہ ہے حالانکہ ہم نے اپنی سڑکوں کی تعمیر کےلئے کبھی چین ، امریکہ ، انگلینڈ یا فرانس سے مدد نہیں مانگی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے یہ تبصرہ حزب اختلاف بی جے پی اور حکمراں نیشنل کانفرنس کے ارکان کی جانب سے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں پیش رفت پر گرما گرم الفاظ کے تبادلے کو لیکر کیا۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ سرحد پار کے علاقوں میں جو بھی پیش رفت ہوئی ہے وہ چین کی آشیرواد کی وجہ سے ہوئی ہے۔
وقفہ سوالات کے دوران نیشنل کانفرنس کے ایم ایل اے اور سابق وزیر سیف اللہ میر نے کہا کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر( پی او کے) میں سرحدی بنیادی ڈھانچہ اس طرف کے مقابلے میں بہتر ہے، حالانکہ انہوں نے ضلع کپواڑہ کے کیرن اور جوگنڈ کے سرحدی علاقوں کو ہر موسم میں رابطہ فراہم کرنے کے لئے سرنگ کی تعمیر کی وکالت کی۔
بی جے پی کے آر ایس پٹھانیا نےاس طرح کا موازنہ کرنے پر اعتراض کیا۔
نیشنل کانفرنس کے ایم ایل اے نذیر گریزی اور پیپلز کانفرنس کے ایم ایل اے سجاد غنی لون ‘میر کے دفاع میں سامنے آئے، جنہوں نے مقامی لوگوں کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی، خاص طور پر سردیوں کے دوران جب کئی مہینوں سے سڑکیں کٹ جاتی ہیں۔
اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے اگرچہ ایوان کی کارروائی کو ہموار بنانے کو یقینی بنایا لیکن بعد میں میر کے ریمارکس کی مذمت کی اور پارٹی رہنما عبداللہ سے وضاحت طلب کی۔
پٹھانیہ نے اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں سے کہا کہ میر کا بیان تشویش ناک اور قابل مذمت ہے اور وزیر اعلی کو اس پر اپنی پارٹی کا موقف واضح کرنا چاہئے۔ان کاکہنا تھا”انہوں نے ایک ایسے ملک کی تعریف کی جس کے ساتھ ہمارا کوئی سفارتی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے ملک نے اپنی کرکٹ ٹیم کو چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلنے کے لئے وہاں نہیں بھیجا اور یہ وہ ملک ہے جو ہندوستان میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے“۔
لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب پر بحث کے دوران جب بی جے پی رکن شام لال شرما بول رہے تھے تو میر اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پٹھانیہ سے سوال کیا کہ انہوں نے انہیں غدار قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا”میرا ارادہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان موازنہ کرنا نہیں تھا۔ نیشنل کانفرنس ایک ایسی جماعت ہے جس نے ملک کےلئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے کارکنوں، ایم ایل اے اور وزراءکو دہشت گردوں نے قتل کیا“۔
گریزی بھی میر کے دفاع میں اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہا کہ اگر کسی نے کوٹ پہنا ہوا ہے تو اس میں کیا حرج ہے جب میں کہتا ہوں کہ اس کے پاس اچھا کوٹ ہے۔
حالات کے قابو سے باہر ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ نے ارکان سے اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی درخواست کی اور کہا کہ گریزی اپنے بیان میں غلط نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنی بات پوری نہیں کی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا”سرحدوں پر جو کچھ بھی کیا گیا ہے وہ دکھاوے کے لیے کیا گیا ہے اور وہ بھی انہوں (پاکستان) نے خود نہیں کیا۔ سرحد پار سرحدی علاقوں میں جو بھی پیش رفت ہوئی وہ چین کی آشیرواد کی وجہ سے ہوئی جبکہ باقی علاقوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی“۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت بات چیت کا موضوع ہو سکتی ہے لیکن میر، جو لائن آف کنٹرول کے قریب رہتے ہیں، جو کچھ دیکھتے ہیں اسے شیئر کرنے میں غلط نہیں ہےں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”وہاں (پی او کے میں) حالات بہت خراب ہیں۔ ہم نے کبھی کسی دوسرے ملک سے مدد نہیں مانگی، ہم نے چین، امریکہ، انگلینڈ یا فرانس سے اپنی سڑکیں بنانے کے لیے نہیں کہا“۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار سڑکوں کی تعمیر چین نے کی ہے اور جموں و کشمیر کے ہر حصے میں ترقی ہوئی ہے حالانکہ ہم نے اپنے سرحدی لوگوں کو کوٹ فراہم نہیں کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار لوگوں کو دیے جانے والے کوٹ کی جیبیں خالی ہوتی ہیں جس سے گھر میں ہنسی آتی ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ہمیں اس طرح کی غیر ضروری بحث میں نہیں پھنسنا چاہئے۔ جہاں کہیں بھی ترقی کی ضرورت ہے، وہ ہونی چاہئے اور جہاں مزید بہتری کی ضرورت ہے وہاں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کیا جائے گا۔
اپنی تقریر دوبارہ شروع کرنے سے پہلے شرما نے پارٹی ایم ایل اے شگن پریہار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اجیت پریہار اور چچا انیل پریہار بھی نومبر 2018 میں کشتواڑ ضلع میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔انہوں نے کہا”دہشت گردوں کی گولیاں لوگوں کے درمیان فرق نہیں کرتی ہیں۔“