جموں//
کشمیر کے میر واعظ عمر فاروق کی جانب سے بے گھر کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے ان کے ارکان سے ملاقات کے چند دن بعد، برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک اہم گروپ پنن کشمیر نے ہفتہ کے روز مصالحتی کوششوں کو ’بے معنی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
تنظیم نے کہا کہ کشمیر کے اندر ایک علیحدہ وطن کیلئے جدوجہد جاری رہے گی جہاں کشمیری ہنڈت وقار کے ساتھ رہتے ہیں جب تک ’انصاف نہیں مل جاتا‘۔
میرواعظ، جو وادی کشمیر کے ایک ممتاز عالم دین بھی ہیں، نے حال ہی میں دہلی میں ایک کشمیری پنڈت گروپ، جموں و کشمیر پیس فورم کے ممبروں سے ملاقات کی، جو۱۹۸۰ کی دہائی میں عسکریت پسندی کے شروع ہونے کے بعد گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کے مختلف حصوں میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی برادری کو دوبارہ آباد کرنے کی ایک نئی کوشش کا حصہ ہے۔
پنن کشمیر نے کہا کہ اس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جبری بقائے باہمی کے ناکام ماڈل کی طرف کوئی واپسی نہیں ہو سکتی جس کے نتیجے میں کشمیری ہندوؤں پر بار بار نسل کشی کے حملے ہوئے ہیں۔
اس نے ایک بیان میں کہا ’’ اس مسئلے کا واحد قابل عمل حل کشمیر کے اندر ایک علیحدہ وطن کا قیام ہے جہاں کشمیری ہندو مکمل آئینی حقوق، تحفظ اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔ اس مطالبے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور کوئی سطحی اشارے یا سیاسی محرکات اس بنیادی حقیقت کو تبدیل نہیں کریں گے کہ انصاف کی فراہمی ضروری ہے‘‘۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’خوشنودی کا دور‘ ختم ہو چکا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ تاریخ کو ان لوگوں کے مطابق دوبارہ نہیں لکھا جا سکتا جو کبھی ’کمیونٹی کے ظلم و ستم کو جائز ٹھہراتے تھے یا اس میں شریک رہے تھے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مصالحت کو ذمہ داری سے بچنے کیلئے اسموک سکرین کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری ہندوؤں کی نسل کشی کو تسلیم کرے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے کہ ان کے وطن میں ان کا جائز مقام بحال ہو۔
گروپ نے اس بات پر زور دیا کہ سچائی، انصاف اور احتساب کے بغیر مفاہمت بے معنی ہے اور ’انصاف کی فراہمی تک علیحدہ وطن‘ کیلئے جدوجہد جاری رہے گی۔
پنن کشمیر نے کہا کہ کسی بھی بامعنی مصالحت کا آغاز نسل کشی کے باضابطہ اعتراف سے ہونا چاہیے، جس کے بعد انصاف، بحالی اور احتساب کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
پنن کشمیر نے بیان میں کہا’’انصاف ایک مبہم تصور نہیں ہے بلکہ ایک منظم عمل ہے جس میں کیے گئے جرائم کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے، محفوظ واپسی کے لئے ادارہ جاتی ضمانت، تباہ شدہ جانوں اور املاک کی تلافی اور نسل کشی کو منظم کرنے اور اس کی اجازت دینے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان اقدامات کے بغیر مصالحت کی کوئی بھی بات مجرموں کو بری الذمہ قرار دینے اور متاثرین کو خاموش کرانے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔