تحریر:ہارون رشید شاہ
انداز ہ لگائیے کہ اگر آپ امتحان میں ہر سوال کا ایک ہی جواب لکھ دیں تو … تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ‘ آپ کا کیا نتیجہ آئے گا ۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیںہے ‘ اس لئے آپ خودبھی جانتے ہیں کہ آپ فیل ہوں گے ‘ نتیجہ آپ کے حق میں نہیں ہو گا اور بالکل بھی نہیںہو گا اور … اور اس لئے نہیں ہو گا کیونکہ آپ نے ہر ایک سوال کا ایک ہی جواب لکھا تھا … ایک ہی جواب دیا تھا ۔ آپ کو اپنی اس ناکامی کا اعتراف کرنا چاہئے کیونکہ ہر ایک سوال کا ایک ہی جواب دینا سچ میں ناکامی ہے … اور سو فیصد ہے ۔ہم تو آپ سے اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنی اس ناکامی کا اعتراف کریں گے اور اس لئے کریں گے کیونکہ یہ واقعی آپ کی ناکامی ہے… لیکن اُن کا کیا کیجئے گا جو اسے اپنی ناکامی نہیں بلکہ کامیابی سمجھتے ہیں اور… اور سو فیصد سمجھتے ہیں … کیسے ہم نہیں جانتے ہیں ‘ بالکل بھی نہیں جانتے ہیں۔ سوال چاہے کچھ بھی ہو‘ وہ کسی بھی شکل و صورت میں ان سامنے آ جائے لیکن … بار بار اور ہر بار ان کا جواب ایک ہی ہو تا ہے … کوئی دوسرا نہیں اور … بار بار اور ہر بار ایک ہی جواب دہرانے پر یہ خود ہی اپنی پیٹھ بھی تھپتھپاتے ہیں… اور اس لئے تھپتھپاتے ہیں کیونکہ ان کا جواب کوئی اور چیک نہیں کرتا ہے … یہ خود ہی جواب چیک کرتے ہیں اور پھر خود ہی یہ بھی فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ اپنے لکھے ہو ئے اس جواب کو کتنے نمبر دیں گے اور یقین کیجئے کہ یہ ہر بار سو میں سو نمبر دیتے ہیں… گرچہ ان کابس چلتا تو یہ کبھی کبھی سو میں سے خود کو ڈیڑھ سو نمبرات بھی دیتے اور شوق سے دیتے ۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ہم ان سے کوئی سوال کریں … ہم میں اتنی ہمت ہے اور نہ اللہ میاں کی قسم جرأت… لیکن بھیا یہ بھی کیا بات ہوئی کہ ہر ایک سوال کا یہ ایک ہی جواب دیں … ایک ہی جواب تحریر کریں …یہ جواب کہ سسٹم غلط ہے‘ نظام کورپٹ ہے‘ یہاں صرف سفارش چلتی ہے‘ میرٹ پر کچھ نہیں ہو تا ‘ مستحق افراد کو ان کاحق نہیں ملتا ہے‘ اگر آپ اپنے ہر ایک مسئلہ کا صرف یہی ایک جواب سمجھیں‘ اسے ہی جواب قرار دیں دے تو … تو صاحب یقین کیجئے کہ پھر آپ کا کوئی بھی مسئلہ حل ہونے سے رہا اور… اور اس لئے رہا ہے کہ آپ کا ہر ایک سوال کا صرف یہ ایک جواب اصل میں آپ کا بہانہ ہے… کچھ نہ کرنے کا بہانہ اور … اور کچھ نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟