ایسا محسوس ہورہاہے کہ کشمیر پر خوف ودہشت کے سایے پھر سے دراز تر ہوتے جارہے ہیں۔ گردوپیش میں پیش آمدہ واقعات اور زمینی سطح پر حالات اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں کہ حالات کچھ بہتر نہیں ہیں۔
سوال یہ نہیں ہے کہ کس کا لہو ، کون مرا، بلکہ یہ ہے کہ سرزمین کشمیر ایک بار پھر لہو رنگ کی دہلیز پھلانگتی دکھائی دے رہی ہے، موت کا یہ رقص بسمل آبادی کے مختلف طبقوں کے اندر خوف ودہشت کو پیدا کرتا جارہاہے وہیں اوسط شہری کی نفسیات اور اعصاب بھی منفی طور سے متاثر ہورہے ہیں۔ جبکہ روزمرہ کا معمول بڑے پیمانے پر تھکن اور گھٹن کا شکار ہوتا جارہاہے۔
ہلاکتوں سے متاثرین طبقے اور گھرانے اپنے لئے تحفظ کا جو مطالبہ کررہے ہیں وہ واجبی بھی ہے اور فطرتی ردعمل بھی، حکو ت اور ایڈمنسٹریشن کا اِن معاملات اور پیش آمدہ حالات واقعات پر جو کچھ بھی اب تک ردعمل اور اقدامات کی صورت میں اپروچ سامنے آیا ہے وہ اس کی اپنی بساط اور قوت کے مطابق ہے البتہ کچھ حلقوں کایہ مسلسل دعویٰ کہ کشمیرمیں تعینات پویس او رسکیورٹی ایجنسیوں کو جو کچھ بھی عوامی سطح پر انٹیلی جنس حاصل ہوتی رہی اور جن کی اطلاع یا جانکاری کی بنا پر کامیاب آپریشنز عمل میں لائے جاتے رہے اُن اطلاعات (انٹیلی جنس) کے سوتے خشک ہورہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ایجنسیوں کو جو تعاون اور اشتراک حاصل رہا وہ اب نہیں رہا ہے یا اُس میں کمی آرہی ہے۔
قطعیت کے ساتھ نہیں کہاجاسکتاہے کہ یہ دعویٰ کس حد تک صحیح اور کس حد تک غلط یا محض قیاسات پر مبنی ہے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہے جو فی الحال پردے کی اوٹ میںہے۔
پولیس مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ وہ مقامی نوجوانوں کو جنگجوصفوںمیں شامل ہونے سے بہت حد تک روکنے میں کامیاب ہورہی ہے جبکہ اس حوالہ سے والدین کا مثبت تعاون انہیں حاصل ہے اس تعلق سے مزید قابل عمل اقدامات بھی اُٹھائے جارہے ہیںلیکن خودپولیس کا یہ اعتراف بھی اب ریکارڈ پر دستیاب ہے کہ اب تک تین درجن مقامی نوجوان جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں یا گھروں سے غائب ہیںجن کی گمشدگی کے بارے میں ان کے گھر والے پولیس میں کوئی رپورٹ درج نہیں کرارہے ہیں۔
ایسا کیوں ہورہاہے، یہ نیا نیا منظرنامہ کیا ہے اور اس کی بُنیادی وجہ کیا ہے، کیوں مقامی نوجوان جنگجوئوں کی صف میں شامل ہورہے ہیں جبکہ انہیں اچھی طرح سے معلو م ہے کہ جنگجوئوں کی صف میں شامل ہونے کی صورت میں ان کی شلف لائف محض چند دنوں سے لے کر کچھ ہفتوں تک ہی ہے۔ یہ سوال غو ر طلب بھی ہے اور فکر وتحقیق کا بھی متقاضی ہے۔ اس معاملہ کی تہہ تک جانے کیلئے پالیسی ساز اداروں اور زمینی سطح پر کام کرنے والی ایجنسیوں کو محرکات اور عوامل تلاش کرنے ہوں گے، بے شک اور بلا تردید کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایسے معاملات میںسرحد پار کی شہ کا بہت بڑا عمل دخل ہے لیکن اس عمل دخل کو روکنے اورزمین بوس کرنے کیلئے سرحد کے اِس پار یہی دعویٰ کیاجاتارہاہے کہ سرحدوں پر چوکسی اور نگرانی کو سخت بنایاجارہاہے، سکیورٹی کے کئی حصاروں کو وجود بخشا گیا ہے، جبکہ دیگر اقدامات کے طفیل دراندازی پر بھی کماحقہ قابو پایاجارہاہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ جنگجوئوں کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ ان کے ہاتھ کہاں سے پہنچ رہے ہیں، کشمیر یا جموں میں ہتھیاروں کی ایسی کوئی منڈی پاکستان کے لنڈا بازار یا خیبر خطے کی طرز پر کہیں نہیں ہے۔
بہرحال تیزی سے اُبھر رہا منظرنامہ کشمیرکی معیشت اور روزمرہ معمولات پر اثرانداز ہوتانظرآرہاہے ۔ کشمیر کی سیاحتی انڈسٹری پہلی کیجولٹی بن سکتی ہے۔ جبکہ معیشت کے دوسرے اہم ترین شعبے بتدریج متاثر ہوتے جائیںگے۔ سیاحوں کی واپسی غیر معمولی محسوس ہورہی ہے، غیر مقامی ملازمین جن کی تعداد تقریباً ۹؍ہزارکے قریب ہے بھی انفرادی طور سے واپس گھر وں کو لوٹ رہے ہیں۔
اس نوعیت کی اُبھررہی صورتحال سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے یا نمٹا جانا چاہئے، اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے اس کے برعکس قومی دھارے سے وابستہ سیاستدان اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں بلکہ اپنے بیانیہ کے طور پیش کرکے آگے بھی بڑھارہے ہیں کہ حکومت کا حالات معمول پر آنے کے تمام تر دعویٰ غلط اور گمراہ کن ثابت ہورہے ہیں اور اس بیانیہ کے ایک جز کے طور الیکشن کرانے اور سویلین (سویلین سے مرادان کی حکومت قائم کرنے یا اقتدار ان کے ہاتھوں سونپ دینے )پر حکومت تشکیل دینے کا اصرار بطور حجت کے پیش کیاجارہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الیکشن فی الحال باالخصوص موجودہ تناظرمیں عوام کی کوئی خاص ترجیح نہیں ہے۔ لیکن اس تلخ حقیقت کے باوجود سیاستدان نہ جانے کیوں صرف اور صرف الیکشن راگنی کو الاپ رہے ہیںجبکہ دوسرے سنگین مضمرات کے حامل معاملات ان کی کسی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔ کیا یہ ان کی سوچ کا المیہ نہیں؟