نئی دہلی//
قانونی ماہرین کے اس بارے میں مختلف آراء ہیں کہ آیا جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر حکومت کی تشکیل کے وقت یا بعد کے مرحلے میں وزرا کی کونسل کی مدد اور مشورہ پر پانچ ایم ایل اے کو نامزد کرسکتے ہیں۔
جموں کشمیر میں۹۰؍ اسمبلی نشستیں ہیں جن کیلئے انتخابات تین مرحلوں میں ہوئے تھے اور انتخابی نتائج کا اعلان منگل کو کیا جانا ہے۔
ایل جی کی جانب سے نامزد کئے جانے والے پانچ ارکان کے ساتھ اسمبلی کی موثر تعداد ۹۵ ہو جائے گی، جہاں اکثریت کا نشان ۴۸ ہوگا۔
ان پانچ ایم ایل اے کو نامزد کرنے کا ایل جی کا اختیار ایسے وقت میں اہمیت کا حامل ہے جب ایگزٹ پول میں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی گئی ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نامزد ایم ایل اے ایوان میں اکثریت کا فیصلہ کرنے میں کردار ادا کریں گے۔
دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) ایس این ڈھنگرا سے جب پوچھا گیا کہ ایل جی کے پاس پانچ ممبروں کو نامزد کرنے کا اختیار کیا جا سکتا ہے اور کیا اس کا استعمال کابینہ کی مدد اور مشورہ کے بغیر کیا جا سکتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا اور اس مرحلے پر یہ مسئلہ قبل از وقت ہے۔
جسٹس ڈھنگرا نے پی ٹی آئی کو بتایا’’ہم اصل نتائج کا انتظار کر سکتے ہیں کیونکہ یہ سوال نتائج پر منحصر ہے‘‘۔
اس معاملے پر سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن نے کہا کہ مرکز کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح کے اقدامات منتخب حکومتوں کے کام کاج کو دفن کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل اشونی کمار دوبے نے سپریم کورٹ کے ۲۰۱۸کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں اس وقت کی ایل جی کرن بیدی کے ذریعہ پڈوچیری اسمبلی کیلئے تین ممبروں کو نامزد کرنے کے مرکز کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹، جس میں۲۰۲۳ میں ترمیم کی گئی تھی، اس معاملے پر ’واضح‘ نہیں ہے کہ آیا نامزد ایم ایل اے کا حکومت کی تشکیل میں کوئی کردار ہوگا یا نہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا جموں و کشمیر کے ایل جی کو پانچ ایم ایل اے نامزد کرنے کا اختیار کونسل آف منسٹرس کی مدد اور مشورہ سے حاصل ہونا چاہئے، سینئر وکیل شنکر نارائنن نے کہا کہ پڈوچیری کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہونے اور مرکز کی ملکیت ہونے کے تناظر میں سپریم کورٹ نے اس کا جواب دیا ہے۔
نارائنن نے کہا’’جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، ایک بار جب سپریم کورٹ نے سالیسٹر جنرل کے اس بیان کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ اسے مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا، تو یہ سوال لاگو نہیں ہوسکتا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے ، لہذا کشمیر کا موازنہ پڈوچیری سے نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔
سینئروکیل نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ منتخب حکومتوں کے کام کاج میں مرکز کی اس طرح کی سیاسی مداخلت کو مناسب طریقے سے دفن کیا جائے۔ ’’ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح دہلی اور پڈوچیری میں انتظامیہ رک گئی ہے، جس سے شہریوں کے حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں‘‘۔
جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل ۲۳۹؍اے کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل دوبے نے کہا کہ اس قانون میں ریاستی اسمبلی کیلئے پانچ ممبروں کو نامزد کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں دو خواتین ، دو مہاجر برادری اور ایک پی او جے کے پناہ گزین شامل ہے۔
دوبے نے کہا’’لیکن یہ’حکومت کی تشکیل یا عدم اعتماد کے ووٹ‘ کے دوران نامزد ممبروں کے ووٹنگ کے حق کے معاملے پر’غیر واضح/ خاموش‘ ہے‘‘۔
پڈوچیری معاملے میں۲۰۱۸ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا تھا کہ مرکزی حکومت کو اسمبلی میں ممبروں کی نامزدگی کیلئے ریاست سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نامزد ممبروں کو منتخب ممبروں کی طرح ووٹ دینے کا حق ہے۔
کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے جموں و کشمیر میں حکومت کی تشکیل سے پہلے پانچ ارکان کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔
اگست ۲۰۱۹میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کر دیا گیا تھا اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
جموں و کشمیر اسمبلی پڈوچیری اسمبلی کی طرز پر بنائی گئی ہے جہاں تین نامزد ارکان منتخب ایم ایل اے کے برابر کام کرتے ہیں اور انہیں ووٹ نگ کا حق حاصل ہوتا ہے۔