جموں//
جموں کشمیر اسمبلی کے رکن کے طور پر لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے نامزد کیے جانے والے پانچ افراد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اگلی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے حکومت کی تشکیل سے پہلے پانچ ارکان کی نامزدگی کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کی دھمکی دی تھی۔
اگست۲۰۱۹ میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کردیا گیا تھا اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔
جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ کی دفعہ ۱۵ کے مطابق ’’دفعہ ۱۴ کی ذیلی دفعہ (۳) میں کچھ بھی ہونے کے باوجود ، جانشین مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر خواتین کو نمائندگی دینے کے لئے قانون ساز اسمبلی میں دو ارکان کو نامزد کرسکتے ہیں ، اگر ان کی رائے میں قانون ساز اسمبلی میں خواتین کی مناسب نمائندگی نہیں ہے‘‘۔
اس قانون میں ۲۰۲۳ میں ترمیم کی گئی تھی۔
ترمیم میں کہا گیا ہے’’پرنسپل ایکٹ کی دفعہ ۱۵کے بعد درج ذیل دفعات شامل کی جائیں گی، یعنی:۱۵ اے۔ دفعہ ۱۴ کی ذیلی دفعہ (۳) میں کچھ بھی شامل ہونے کے باوجود، مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کیلئے دو سے زیادہ ممبروں کو نامزد نہیں کر سکتے ہیں، جن میں سے ایک کشمیری تارکین وطن برادری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہوگی‘‘۔
یہ بھی کہا گیا ہے’’۱۵ بی دفعہ ۱۴ کی ذیلی دفعہ (۳) میں کچھ بھی شامل ہونے کے باوجود، مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر سے بے گھر افراد میں سے ایک رکن کو جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لئے نامزد کرسکتے ہیں۔
ان پانچ نامزد ارکان کے پاس دوسرے ایم ایل اے کی طرح اختیارات اور ووٹنگ کا حق ہوگا۔
کانگریس پہلے ہی جموں و کشمیر میں حکومت کی تشکیل سے قبل پانچ ایم ایل اے کی نامزدگی کی سخت مخالفت کر چکی ہے اور اس طرح کے کسی بھی اقدام کو جمہوریت اور آئین کے بنیادی اصولوں پر حملہ قرار دے چکی ہے۔
کانگریس کاکہنا ہے’’ہم جموں کشمیر میں حکومت کی تشکیل سے پہلے ایل جی کے ذریعہ پانچ ایم ایل اے کی نامزدگی کی مخالفت کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی (جے کے پی سی سی) کے سینئر نائب صدر اور چیف ترجمان رویندر شرما نے جمعہ کو کہا کہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام جمہوریت ، عوام کے مینڈیٹ اور آئین کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہے۔
نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اگر بی جے پی کی زیرقیادت مرکز اسمبلی کیلئے پانچ ارکان کی نامزدگی کے لئے ایل جی کو اختیارات دیتا ہے تو ان کی پارٹی سپریم کورٹ جائے گی۔
فاروق نے کہا کہ ایل جی کو سب سے پہلے اس عمل سے دور رہنا چاہئے کیونکہ حکومت تشکیل دی جارہی ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو نامزد کرے اور اسے (نامزدگیاں) ایل جی کو بھیجے۔ یہ ایک عام طریقہ کار ہے‘‘۔
این سی صدرنے پیر کو سرینگر میں کہا’’وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، مجھے نہیں معلوم۔ تاہم، اگر وہ ایسا کرتے ہیں (ایل جی کو اختیارات دیتے ہیں) تو ہم سپریم کورٹ جائیں گے۔ اگر لارڈ صاحب یہاں رہتے ہیں تو حکومت بنانے کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں ان سب کے خلاف لڑنا ہوگا‘‘۔
پی ڈی پی رہنما التجا مفتی نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کو اسمبلی میں پانچ ارکان نامزد کرنے کا اختیار دینا انتخابات میں دھاندلی ہے۔انہوں نے کہا’’ایل جی نے جن پانچ ایم ایل اے کو نامزد کیا ہے، وہ سبھی بی جے پی کے رکن ہیں یا پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں‘‘۔ التجا مفتی نے ایکس پر پوسٹ کیا’’نتائج سے پہلے دھاندلی اور شرمناک ہیرا پھیری‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ جموں کشمیر میں پہلی بار نئی حکومت کی تشکیل میں اسمبلی کے پانچ نامزد ارکان کا اہم کردار ہوسکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ توقع ہے کہ ایل جی مرکزی وزارت داخلہ کے مشورے کی بنیاد پر ان ممبروں کو نامزد کریں گے۔
اگر حکومت کی تشکیل سے پہلے پانچ ارکان کو نامزد کیا جاتا ہے تو جموں و کشمیر اسمبلی میں ارکان کی تعداد ۹۵ ہو جائے گی ، جس سے حکومت بنانے کیلئے اکثریت کی حد بڑھ کر ۴۸ ہو جائے گی۔
جموں کشمیر اسمبلی پڈوچیری اسمبلی کی طرز پر بنائی گئی ہے جہاں تین نامزد ارکان منتخب ایم ایل اے کے برابر کام کرتے ہیں اور انہیں ووٹ نگ کا حق حاصل ہوتا ہے۔
پڈوچیری کی سابق ایل جی کرن بیدی کے اس وقت کی کانگریس زیرقیادت حکومت سے مشورہ کیے بغیر یو ٹی اسمبلی میں دو ممبروں کو نامزد کرنے کے فیصلے کو مدراس ہائی کورٹ اور بعد میں۲۰۱۷۔۲۰۱۸میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
پڈوچیری حکومت نے دلیل دی کہ ایل جی کو ممبران اسمبلی کو نامزد کرنے سے پہلے چیف منسٹر سے مشورہ کرنا چاہئے تھا لیکن سپریم کورٹ نے اسے برقرار رکھا اور ایل جی کی جانب سے ممبر کو نامزد کرنے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں پائی۔ (ایجنسیاں)