نئی دہلی/۷اکتوبر
قانونی ماہرین کے اس بارے میں مختلف آراء ہیں کہ آیا جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر حکومت کی تشکیل کے وقت یا بعد کے مرحلے میں وزرا کی کونسل کی مدد اور مشورہ پر پانچ ایم ایل اے کو نامزد کرسکتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں 90 اسمبلی نشستیں ہیں جن کےلئے انتخابات تین مرحلوں میں ہوئے تھے اور انتخابی نتائج کا اعلان منگل کو کیا جانا ہے۔
ایل جی کی جانب سے نامزد کئے جانے والے پانچ ارکان کے ساتھ اسمبلی کی موثر تعداد 95 ہو جائے گی، جہاں اکثریت کا نشان 48 ہوگا۔
ان پانچ ایم ایل اے کو نامزد کرنے کا ایل جی کا اختیار ایسے وقت میں اہمیت کا حامل ہے جب ایگزٹ پول میں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی گئی ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نامزد ایم ایل اے ایوان میں اکثریت کا فیصلہ کرنے میں کردار ادا کریں گے۔
دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) ایس این ڈھنگرا سے جب پوچھا گیا کہ ایل جی کے پاس پانچ ممبروں کو نامزد کرنے کا اختیار کیا جا سکتا ہے اور کیا اس کا استعمال کابینہ کی مدد اور مشورہ کے بغیر کیا جا سکتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا اور اس مرحلے پر یہ مسئلہ قبل از وقت ہے۔
جسٹس ڈھنگرا نے پی ٹی آئی کو بتایا”ہم اصل نتائج کا انتظار کر سکتے ہیں کیونکہ یہ سوال نتائج پر منحصر ہے“۔
اس معاملے پر سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن نے کہا کہ مرکز کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح کے اقدامات منتخب حکومتوں کے کام کاج کو دفن کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل اشونی کمار دوبے نے سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں اس وقت کی ایل جی کرن بیدی کے ذریعہ پڈوچیری اسمبلی کےلئے تین ممبروں کو نامزد کرنے کے مرکز کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019، جس میں 2023 میں ترمیم کی گئی تھی، اس معاملے پر ’واضح‘ نہیں ہے کہ آیا نامزد ایم ایل اے کا حکومت کی تشکیل میں کوئی کردار ہوگا یا نہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا جموں و کشمیر کے ایل جی کو پانچ ایم ایل اے نامزد کرنے کا اختیار کونسل آف منسٹرس کی مدد اور مشورہ سے حاصل ہونا چاہئے، سینئر وکیل شنکر نارائنن نے کہا کہ پڈوچیری کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہونے اور مرکز کی ملکیت ہونے کے تناظر میں سپریم کورٹ نے اس کا جواب دیا ہے۔
نارائنن نے کہا”جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، ایک بار جب سپریم کورٹ نے سالیسٹر جنرل کے اس بیان کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ اسے مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا، تو یہ سوال لاگو نہیں ہوسکتا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے ، لہذا کشمیر کا موازنہ پڈوچیری سے نہیں کیا جاسکتا ہے“۔
سینئروکیل نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ منتخب حکومتوں کے کام کاج میں مرکز کی اس طرح کی سیاسی مداخلت کو مناسب طریقے سے دفن کیا جائے۔ ”ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح دہلی اور پڈوچیری میں انتظامیہ رک گئی ہے، جس سے شہریوں کے حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں“۔
جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 239 اے کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل دوبے نے کہا کہ اس قانون میں ریاستی اسمبلی کیلئے پانچ ممبروں کو نامزد کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں دو خواتین ، دو مہاجر برادری اور ایک پی او جے کے پناہ گزین شامل ہے۔
دوبے نے کہا”لیکن یہ’حکومت کی تشکیل یا عدم اعتماد کے ووٹ‘ کے دوران نامزد ممبروں کے ووٹنگ کے حق کے معاملے پر’غیر واضح/ خاموش‘ ہے“۔
پڈوچیری معاملے میں 2018 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا تھا کہ مرکزی حکومت کو اسمبلی میں ممبروں کی نامزدگی کے لئے ریاست سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نامزد ممبروں کو منتخب ممبروں کی طرح ووٹ دینے کا حق ہے۔
کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے جموں و کشمیر میں حکومت کی تشکیل سے پہلے پانچ ارکان کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا گیا تھا اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
جموں و کشمیر اسمبلی پڈوچیری اسمبلی کی طرز پر بنائی گئی ہے جہاں تین نامزد ارکان منتخب ایم ایل اے کے برابر کام کرتے ہیں اور انہیں ووٹ نگ کا حق حاصل ہوتا ہے۔