سرینگر/۴اکتوبر
نیشنل کانفرنس نے 8 اکتوبر کو اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اعلان سے پہلے جمعہ کو کہا کہ وہ جموں و کشمیر میں انتخابات کے بعد اتحاد کے لئے انڈیا بلاک سے باہر کسی بھی پارٹی کے ساتھ بات چیت نہیں کر رہی ہے۔
پارٹی سوشل میڈیا پوسٹس کا جواب دے رہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نیشنل کانفرنس نے معلق اسمبلی کی صورت میں ممکنہ حکومت کی تشکیل کےلئے بی جے پی کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے۔
این سی نے واضح طور پر انڈیا بلاک سے باہر کسی بھی پارٹی کے ساتھ ’بیک چینل‘ بات چیت کی بے بنیاد افواہوں کی تردید کی ہے۔
نیشنل کانفرنس نے ایک بیان میں کہا کہ جو لوگ اپنی متوقع شکست کو محسوس کر رہے ہیں انہوں نے اس طرح کے بے بنیاد الزامات پھیلانے کا سہارا لیا ہے۔
پارٹی نے کہا کہ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں جنہوں نے ہم پر بھروسہ کیا ہے کہ وہ ان جھوٹے دعووں کو نظر انداز کریں اور افواہیں پھیلانے سے متاثر نہ ہوں۔
نیشنل کانفرنس کی جانب سے یہ وضاحت 8 اکتوبر سے کچھ دن پہلے سامنے آئی ہے، جب جموں و کشمیر اسمبلی کی 90 نشستوں کے لئے ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔
کانگریس کے ساتھ انتخابات سے پہلے اتحاد کرنے والی نیشنل کانفرنس یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں اگلی حکومت بنائے گی۔ دوسری جانب بی جے پی بھی اگلی حکومت بنانے کےلئے اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔
جمعرات کو سرینگر کے سابق میئر جنید مٹو نے نیشنل کانفرنس پر بی جے پی کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا الزام لگایا تھا۔
متو نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کے درمیان بات چیت واضح طور پر شروع ہو چکی ہے۔ نیشنل کانفرنس کی قیادت اب بی جے پی کے مجاز نمائندوں سے بات کر رہی ہے اور ایک غیر سرکاری ثالث ’ثالثی‘ کر رہا ہے۔ انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا”ابتدائی زمینی کام میں کشمیر میں دھوکہ دہی کا جواز پیش کرنے کے لئے ’وسیع تر مفاد‘ کا خاکہ تیار کرنا شامل ہے۔“
متو نے پوچھا”ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پہلگام میں بی جے پی کے کس نمائندے سے ایک نہیں بلکہ دو بار ملاقات کی؟ پہلگام میں کیا مذاکرات ہو رہے ہیں؟ بی جے پی کے ممنوعہ ہونے کے تمام بیانات کا کیا ہوا؟ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ وہی رہتی ہیں۔“ (ایجنسیاں)