حکومتی کاوشوں، سیاحت سے وابستہ مختلف اداروں، ٹریول ایجنسیوں، ہوٹل اور ریستوراں مالکان، ٹرانسپورٹرز، ہائوس بوٹ اور دوسرے بلواسطہ اور بلاواسطہ افراد اور تنظیموں کی مسلسل کوششوں اور اشتراک عمل کے نتیجہ میں جموںوکشمیر کی سیاحتی صنعت کا نہ صرف کئی دہائیوں پر محیط نامسائد حالات کے بعد احیاء ہورہا ہے بلکہ گذشتہ چند ایک برسوں کے دوران ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی ریکارڈ توڑ آمد بھی چشم بینا دیکھ رہی ہے۔
اعداد وشمارات پر محض سرسری نگاہ ڈالی جائے تو اس سال (جون کے آخیر تک ) ایک کروڑ ملکی اور غیر ملکی سیاح جموںوکشمیر کی سیاحت پر آئے جبکہ اگلے چند ماہ کے حوالہ سے بھی سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد کی آمد متوقع ہے۔ اس بدلتے سیاحتی منظر نامے سے سیاحت سے وابستہ ہزاروں لوگوں اور اداروںکو راحت ملی جبکہ اقتصادی اور روزگار کے حوالہ سے بھی انہیں چین نصیب ہوا۔وہ سیاحتی مقامات جو دور دراز خطوں میں واقع ہیں بھی سیاحوں کی توجہ اور تفریح کا مرکز بنتے جارہے ہیں، قطع نظراس حقیقت کے کہ ان دوردراز سیاحتی مقامات میںابھی سیاحوں کی طبع تفریح اور وہاں تک پہنچنے کیلئے وہ سارے سہولیات ابھی دستیاب نہیں لیکن عدم سہولیات کو حاشیہ پر رکھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی سیاح ان مخصوص مقامات کو بھی اپنی سیاحت کے تعلق سے ترجیحات کاحصہ بنارہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئنداور اطمینان بخش علامت ہے۔
لیکن اس لینڈ سکیپ کو بنائے رکھنے کیلئے سیاحتی صنعت سے وابستہ اداروں اور افراد کیلئے بھی لازمی ہے کہ وہ اپنا اپنا مٹھی بھر مثبت اور اشتراک عمل پر مبنی تعاون پیش کرے اور کسی ایسی خرمستی اور غلط کاری کا نہ خود ارتکاب کریں اور نہ کاروبار کی آڑ میں مواقع کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کسی بھی سیاح کو ٹھگنے کی کوشش کرے۔ اس حوالہ سے حالیہ کچھ دنوں میں کچھ ایسی بھی اطلاعات منظرعام پر آئی ہیں جو کشمیرکی سیاحتی صنعت کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں اور سیاحت کی صنعت کے ماتھے پر سیاہ دھبہ کے طور بھی اُبھر سکتا ہے۔ کاروبار کریں لیکن دیانتدارنہ طرزعمل کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
اسی دوران بدقسمتی سے خود کو دُنیا کا اکیلے اور طاقتور سپاہی جتلانے کے جنون میں مبتلا امریکہ نے اپنے شہریوں کو ہندوستان کے کچھ شہروں اور جموںوکشمیر کی سیاحت سے گریز کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔ حکم نامہ میںامریکی شہریوں سے کہاگیا ہے کہ وہ جموںوکشمیر اور کنٹرول لائن کے قریب تقریباً دس کلومیٹر علاقوں کے قریب نہ جائیں۔ یہ مشاورت ایک ایسے وقت میںسامنے آئی ہے جب جموںوکشمیرمیںقیام امن کی سمت میں بڑے پیما نے پر کوشش اور اقدامات کا تسلسل جاری ہے، ملکی اورغیرملکی سیاحوں کی آمد آمد میں اطمینان بخش اضافہ ہورہاہے جس کے نتیجہ میں جموںوکشمیر کی مجموعی اقتصادیات اورروزگار کے حوالہ سے بتدریج بہتری آرہی ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام واضح طور سے جموںوکشمیر اور اس کے عوام کے وسیع تر مفادات اور اس کی اقتصادیات میںبہتری کی سمت میں کاوشوں کو دانستہ طور سے سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندکوشش ہے۔
اگر چہ حکومت نے امریکہ کی اس ایڈوائزری کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اور کہا ہے کہ اس نوعیت کی مشاورت ہر ملک کا خاصہ ہے لیکن زمینی سطح پر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اس مخصوص حکم نامے سے جموںوکشمیر کی سیاحتی صنعت کو کافی حد تک دھچکہ لگ سکتا ہے باالخصوص وہ ممالک جو امریکہ کے حربی اور ضربی اور اقتصادی اعتبار سے اتحادی ہیں کے شہری جموںوکشمیر کی سیاحت پرآنے سے ہرممکن گریز کریں گے۔
امریکہ سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ جموں وکشمیر کے مختلف علاقوں میں مارے جارہے دہشت گردوں سے امریکہ اور اس کے بعض اتحادیوں کے جدید ترین ساخت کے ہلاکت خیز ہتھیار برآمد ہورہے ہیں ان پر تشویش کا برملا اظہار کرتا اور اپنی اور اپنے اتحادیوں کی اس حماقت کا اعتراف کرکے اپنی شرمندگی کو زبان دیتا کہ اُس نے فرار ہوتے وقت یہ سارے ہتھیار افغانستان میں چھوڑ دیئے جو اب دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں جن میں سے کچھ جموںوکشمیر بھی پہنچ چکے ہیں، لیکن اُ س نے ایسا نہیں کیا بلکہ برعکس اس کے اپنے شہریوں پر جموںوکشمیر کی سیاحت پر نہ جانے کاحکم نامہ جاری کردیا۔
امریکہ کی جموںوکشمیر کے معاملات میںٹانگ اڈانے کا معاملہ آج کی پیداوارنہیں بلکہ اس کا یہ عمل گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ گذری چند دہائیوں کے دوران اس کے سفارت کار اور دوسرے وا بستہ کشمیر آتے رہے ہیں اورمختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں سے ملتے رہے ہیں۔ اُن دوروں کا اصل مشن کیاہوتاتھامعلوم نہیں۔ بہرحال اگر چہ مرکزی سرکار نے امریکی حکم نامہ کے حوالہ سے کسی سخت ردعمل یا ناپسندیدگی کااظہار نہیںکیا ہے لیکن کشمیر میںسول سوسائٹی اور سنجیدہ حلقے اس بات کو مان کر چلتے ہیں کہ یہ امریکی مشاورت دراصل ہندوستان اور روس کے درمیان تعلقات اور قریبی رشتوں کی تجدید اور اعادہ کا ہی درعمل ہے کہ امریکہ نے ہندوستان کے کچھ شمال مشرقی ریاستوں اور جموںوکشمیر کی سیاحتی صنعتوں کو مخصوص طور سے نشانہ بناکر ہندوستان کے مجموعی مفادات پر وار کرکے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت امریکہ کی خوشنودی کی مرہون منت نہیںہے اور نہ ہی دُنیا امریکہ ہے اور امریکہ نہ دُنیا ہے۔ یہ دُنیا وسیع وعریض ہے جو غیرملکی سیاح کشمیر آتے رہے ہیں ان کا تعلق امریکہ سے نہیں بلکہ دُنیا کے انہی دوسرے خطوں اور ممالک سے رہا ہے اور اب بھی یہی ہے۔ مان بھی لیں کہ چند ہزار امریکی سیاح واردِ جموںوکشمیر ہوتے رہے ہیں لیکن وہ حرف آخر نہیں، اب کی بار امریکی حکمنامہ کی روشنی میں نہ بھی آجائیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑسکتی ہے۔
جموںوکشمیر کی سیاحت کی صنعت اپنے دم پر کھڑی ہے ، البتہ اس کے جو بھی سٹیک ہولڈر س ہیں یہ ان کی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صنعت کے تحفظ ، بقا اور ترقی کیلئے اپنا مثبت اور تعمیری کردار اداکریں۔ کسی ناخوشگوار ی کو جگہ نہ دیں اور نہ حاوی ہونے دیں۔