نشہ آور ادویات اور منشیات کے سوداگروں کے خلاف آئے روز کی پکڑ دھکڑجہاں جاری ہے وہیں دوسری جانب سرحد کے اُس پار سے منشیات کی سمگلنگ کا نہ رکنے اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ جموں وکشمیر کے دونوں خطے منشیات کے سمگلروں اور ان کے آقائوں کے خصوصی نشانے پر ہیں۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو ہر گذرتے لمحے کے ساتھ سنگین اور پُر تشویش رُخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ زمینی سطح پر اب جو نئے حقائق سامنے آرہے ہیں وہ اور بھی پُر تشویش ہیں۔ اب چھوٹے سکولی بچوں اور بچیوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ موت کے ان سوداگروں نے اب تک ایسے کتنے بچوں کو اس لت میں مبتلا کر نے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اس بارے میں مستند اعداد وشمارات فی الحال دستیاب نہیں لیکن جو بچے لت میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کی علمیت جہاں ان کے والدین کو ہے وہیں متعلقہ سکولوں کے منتظمین بھی بے خبر نہیں ہیں۔ البتہ کچھ مصلحتوں اور مجبوریوں کے پیش نظر وہ برملا اعتراف نہیں کررہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد اُس سرزمین سے منشیات کی سمگلنگ کے حجم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ طالبان مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ اسلامی شریعت کے پابند ہیں ، ان کا یہ دعویٰ کچھ زمینی حقائق کے تناظرمیں سچ کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا۔ ان میں سے ایک سچ یہ ہے کہ افغانستان میںمنشیات کی پیداواری فیکٹریوں پر موجودہ حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور پیداوار کو مختلف طریقوں سے عالمی منڈیوں تک پہنچا کر فروخت کیاجارہاہے۔اس کام کیلئے مافیاز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بادی النظرمیں موجود بھی ہے اور کام بھی کررہاہے۔ اس نیٹ ورک کے پنجے دُنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں اور جموں وکشمیر مستثنیٰ نہیں۔
جدید ترین اصطلاح میں نارکوٹیرر ایک ہی سکے کے دو چہرے ہیں جو چہرے ایک دوسرا کا سہارا بن کردُنیا کو تباہی وبربادی سے ہم کنار کرتے جارہے ہیں۔جموں وکشمیر کی سرحدیں اس کے ہمسایہ ملک کے ساتھ ہیں جبکہ ان سرحدوں پر اس پار کم سے کم تین Layerسکیورٹی سیٹ اپ موجود ہیں جو بہت حد تک مضبوط بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سمگلر منشیات کی بڑی مقدار کشمیراور جموں میںموجود اپنے زمینی سطح پر کام کررہے نیٹ ورک تک پہنچانے میںکامیاب ہورہے ہیں۔
ان سمگلروں کے بہت سارے ہاتھوں کو اب تک منشیات سمیت گرفتارکرلیاگیا ہے جبکہ ان کی تحویل سے اب تک حالیہ مہینوں میں کروڑوں اربوں روپے مالیت کی منشیات بھی برآمد کر لی گئی ہے لیکن یہ نیٹ ورک شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا جارہاہے۔ جتنے لوگ پکڑے جارہے ہیں ان سے کہیں زیادہ تعداد میںنئے چہرے نمودار ہو جاتے ہیں۔ اس منظرنامہ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہاہے جیسے کشمیرمیں جائز کاروباری سرگرمیوں اور حلال روزی روٹی کے حصول کیلئے جگہ تنگ پڑتی جارہی ہے لہٰذا لوگ تیز رفتاری سے کرنسی نوٹ سمیٹنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔
اس گھر کو آگ لگی گھر کے ہی چراغ سے کے مصداق اگر مقامی لوگ سمگلر اور موت کا سوداگر بن کر منشیات کے دھندا سے وابستہ نہ ہوجاتے تو کشمیر کی نوجوان نسل اس جان لیوا لت میںمبتلا نہ ہوتی۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق چھ لاکھ سے زائد نوجوان نسل لت میں مبتلا ہوچکی ہے ۔ بہت سارے جو لت میں مبتلا ہوکر اپنی توانائی ، فہم ، قوت برداشت سے بتدریج محروم ہو تے جارہے ہیں کا علاج ڈی ایڈکیشن مراکز میں جاری ہے۔ لیکن جو تباہی ہونی تھی وہ ہوچکی ہے البتہ مستقبل کے تعلق سے فکر مندی اور تشویشات بدستور موجود ہیں کیونکہ منشیات کے دھندے سے وابستہ نیٹ ورک کی کمر ابھی توڑی نہیں جاسکی ہے اور نہ ہی ابھی تک قطعیت کے ساتھ یہ معلوم ہوسکا ہے کہ آخر وہ کون ہے جو کشمیراور جموں خطوں میں اس کا سرغنہ ہے لیکن سوپردوں کے پیچھے خود کو چھپانے میں فی الوقت تک کامیاب ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ منشیات کی لت میں جو لوگ گرفتار ہوچکے ہیں انہوں نے نشہ آور ادویات اور منشیات کی خریداری کیلئے روپیہ کہاں سے حاصل کئے؟ کیا والدین سے یا چوری سے ؟ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میںاپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو اچھی طرح سے سمجھیں اور سمجھ کر نبھائیں۔ کچھ والدین ، جو ناجائز اور بے محنت کی دولت میں شعوری طور غرق ہیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے بچے کھاتے پیتے کیاہیں،ان کی سرگرمیاں کیا ہیں، اُٹھنا بیٹھنا کن لوگوں کی صحبت میں ہے، بچوں کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں اور خرچ کہاں کرتے ہیں۔ اگر والدین نے ابتداء ہی سے ذمہ دار انہ فرض شناس انداز فکر اور طرزعمل کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو ان کے بچے نشے کی لت میں دھت نظرنہ آتے۔ اب جبکہ وہ لت میںمبتلا ہوکر اپنے حواس اور قوت تک زائل کر چکے ہیں بیشتر والدین پریشانی میںاب ہاتھ پیر مارتے دکھائی دے رہے ہیں۔
منشیات کی سمگلنگ ، کھپت، فروخت اور استعمال کا قلع قمع کرنے کی اکیلے ذمہ داری حکومت اور اس کی مشینری پر ہی عائد نہیںہوسکتی ، معاشرے کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔کشمیرکا نوجوان نسل منشیات کی ہلاکت خیز لت میں مبتلا ہوتا رہے اس کے پیچھے کئی مذموم سیاسی وغیر سیاسی مگر مستقبل کے حوالہ سے مکروہ عزائم بھی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان مکروہات کا سمجھ نہیں ہے۔بہرحال خد اکرے یہ لعنت جلد از جلد ختم ہوجائے اور جوملوث ہیں، سمگلر ہیں یا اور کوئی، ان کے بارے میں یہی دُعا کی جاسکتی ہے کہ خدا انہیں غارت کرے۔