عموماً کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ کشمیر آج کی تاریخ میں اسی عمل سے گذررہا ہے جو عام فہم اصطلاح میں’’مکافات عمل ‘‘کہلاتاہے ۔ کشمیرکی تحریک آزادی اور عسکریت کے متوالے سرپرست معاونت کا ر اور دوسرے دھڑا ڈھڑ پاکستان کی پشت پناہی میں آبیاری کی جاتی رہی آزادی اور عسکریت کی تحریک سے اپنی قاتلانہ اور سفاکانہ وابستگی سے اظہار لاتعلقی کے میزائل داغ رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
قومی دھارے کی طرف واپسی کیلئے ان کے فیصلہ ثانی کا خیر مقدم لیکن جو زخم انہوںنے اپنی رعونت، تکبر، آمرانہ غیر انسانی غیر شائستہ طرزعمل کے حوالہ سے اوسط کشمیر کے ہر گھر کو دیئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیاان قاتلانہ اور سفاکانہ طرزعمل اور دبائو دھونس، مار دھاڑ، آتشزدگی، لوٹ مار، فتنہ فساد اور شر جن سے ان سب کے ہاتھ ،جسم اور روح سراپا ملوث ہیں سے بھی اظہار لاتعلقی کریں گے یا ذمہ داری قبول اور تسلیم کرکے پوری قوم سے معافی مانگیں گے۔ کیا کچھ نہیںکیاگیا اس لٹی پٹی اور بدقسمتی سے سادہ لوح قوم کے ارمانوں، تمنائوں اور آرزئوں کے ساتھ۔ ان کے منفرد تشخص اور اقتصادی خوشحالی کا کیا کچھ حشر نہیں کیاگیا۔
مخبری کے نام پر شہریوں کو بموں سے باندھ کر ان کے جسموں کے پرخچے اڑا ئے جاتے تھے، سیاسی نظریات سے وابستہ لوگوں سے اظہار لاتعلقی کے حلفیہ بیانات کا تقاضہ مسلسل تھا، بھتہ خوری عروج پر تھی، سرمایہ داروں کے بینک کھاتوں کو بینکوں میںکام کرنے والے مخصوص ذہنیت کے حامل ملازمین کی وساطت سے جانچ پڑتال کرکے ان سے سرمایہ بٹورنے کا عمل انتہا کو چھو رہا تھا، مختلف لوگوں جو آپسی تنازعات یا معاملات میںاُلجھے تھے کے فیصلے خودساختہ شرعی اور شعوریٰ عدالتوں میں کرنے کا عمل ہر محلہ اور ہر بلاک سطح پر متعارف کرایاگیا، بندوق کی نوک پر جبر قہر کا دور دورہ برپا تھا کوئی شہری مزاحمت تو درکنار اُف تک کرنے کی جرأت نہیں کرتا، سماج کے معززین ، اعلیٰ سرکاری اور یونیورسٹی عہدیداروں کو دفاتر سے گھسیٹ کر گندی نالیوں اور سڑکوں کے کنارے گھنٹوں بٹھاکر ان کی تذلیل کا نہ ختم ہونے والا قہر کی نظیر نہیں،مائیگرنٹ پنڈتوں کی چھوڑی املاک اور جائیداد وں کو اکھاڑ کر دروازے، کھڑکیاں ،الیکٹرک فٹنگ، گھریلو سامان جو کچھ بھی تھا ٹرکوں میں بھر بھر کر لوٹا جاتا رہا، ان کی چھوڑی پراپرٹی کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کردی گئی لیکن بچولیوں کی خدمات حاصل کرکے خود ان جائیداوں کا سودا کرتے رہے، کس کس زیادتی ، ننگا پن، جبروقہر کا احاطہ کیا جائے……؟
ان عناصر کی گھرواپسی ، آئین کی بالادستی اور ملک کی سالمیت کے سامنے اب ان کے سرنڈر کا خیر مقدم کرنے میںکوئی قباحت نہیں جس کا ساراسہرا ملکی وزیر داخلہ امت شاہ کے سر ہے لیکن اِس سوچ کے حامل عنصر کو آئندہ کسی بھی الیکشن یا سیاسی پراسیس میںکسی بھی طرح کی شرکت پر پابندی کا سماجی سطح پر مطالبہ اور خواہش برحق اور واجبی ہے۔ جماعت اسلامی سے سابق وابستگان میں سے بھی کچھ ایک نے حالیہ الیکشن میں حصہ لیا لیکن انہیں عوام نے مسترد کیا، کیوں مسترد کیا یہ غورطلب ہے اگر چہ انہوںنے بھی ووٹ حاصل کئے لیکن جنہوںنے ووٹ ڈالے وہ انہی کی سیاسی سوچ کے حامل تھے، عام ووٹرنہیں ! یہ عنصر گرگٹ سے متشابہ ہیں جبکہ ان کی فطرت کرگھسی ہے۔
ان گذرے زائد از تیس برسوں کے دوران حالات واقعات کا قریب اور بین السطور جائزہ لیاجائے تو یہی نتیجہ ہاتھ آتا ہے کہ کشمیراور کشمیریوں سے اُس دور کے دوران بہت کچھ چھینا گیا، وہ زبردستی، دبائو،خوف اور دھمکیوں سے عبارت دور رہا جبکہ دوسرے اسی کی مشابہ قدرے خاموش دور سے کشمیر گذررہا ہے۔ اگر گذرے برسوں کے دوران شہری کے سر سے دستار اور ٹوپی چھین لی گئی تو اب اس کے پیرئوں تلے سے اس کی زمین سرکائی اور کھسکائی جارہی ہے۔ غالباً یہ سزا کے طور پر حالانکہ کشمیر کا اوسط شہری اس کا مستحق نہیں۔ ۱۹۴۷ء ، ۱۹۶۵ء اور دوسرے جنگوں کے دوران عوام کی شراکت ،رول اور جارح دُشمن کے خلاف اپنے مٹھی بھر کردار کا اسے یہ صلہ نہیں ملنا چاہئے لیکن دیا جارہا ہے۔
اِ س شر اور فساد نے کشمیر کو کم سے کم ایک سو سال پیچھے پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ آج جبکہ کشمیرمیں حالات معمول پر آتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن سینکڑوں افراد ، گھرانے ، خاندان انفرادی اور اجتماعی طور سے ترسیل انصاف سے محروم ہیں۔ان کے معاملات عدالتوں میں ہیں، کمیشنوں میں ہیں، زیر تحقیقات ہیں لیکن انصاف نہیں ہورہاہے، اور نہ ہی ان کے ناکردہ گناہوں کے لئے انہیں کوئی معاوضہ اداکیاجارہاہے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں بھی ایک سنگین نوعیت کا اجتماعی عصمت ریزی سے تعلق معاملہ عرصہ سے زیرالتواء ہے۔ کب اس کی شنوائی ہوگی، کب متاثرین اور ان کے لواحقین کو انصاف ملے گا کوئی عندیہ نہیں، حقائق سے انکار اور وقت کے نام نہاد مبصرین اور مخصوص سیاسی فکر کے حامل کچھ اعلیٰ بیروکریٹوں کی پیش کردہ رپورٹ میں اس مخصوص معاملہ کے آگے سوالیہ نشان جو ان کی دانست میں انکار ہے اور جس کی بُنیاد بقول ان کے پروپیگنڈہ پر رکھی گئی تھی سے زمینی حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔
سٹیٹ کی یہ اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی شہریوں کے حقوق ، مفادات، صحت، سلامتی، بقاء اور اقتصادی معاملات کے حوالہ سے جو کچھ بھی تحفظات آئین کی رئو سے حاصل ہیں ان کا تحفظ اور ترسیل یقینی بنائے۔ حقوق اور مفادات کو حاشیہ پر رکھنے کے عمل سے دور یاں بڑھ جاتی ہیں ملک کے وسیع ترمفادات کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ دل اور فاصلے کی دوریوں کو پاٹنے کا عمل بلکہ ترجیح طور سے ہاتھ میں لیاجائے، یہی وہ ناخوشگوار عمل ہے جو شہریوں کو سسٹم سے متنفر اور علیحدگی نظریات کے راستوں پر چلنے کا محرک بھی بنتا رہاہے۔
اس تناظرمیں تلخ ترین تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کانگریس اپنے طویل دور اقتدار کے دوران کشمیریوں کو جمہوری اور آئینی حقوق سے بتدریج محروم کرتا رہا، ان پر میڈان دہلی کٹ پتلی حکومتیں مسلط کرتا رہا، کورپٹ بدمعاش اور بدکردار سیاسی مہروںکی سرپرستی کرکے کشمیرکو مین اسٹریم سے فاصلے پر دکھیلنے کا ہر ایجنڈا بروئے کا رلایا ۔
ان واقعات ، معاملات اور داستانوں کی طوالت اتنی ہی ہے جتنی کہ کشمیرکی طویل تاریخ !