عوام کے منتخب نمائندے اسمبلیوں میں عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ کے امین ہونے کے ناطے، وہ پارلیمانی یا اسمبلی اجلاسوں میں اپنے حلقوں کے خدشات کو اجاگر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔وہ اُن اشوز کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن کا تعلق لوگوں سے ہو اور اس ضمن میں حکومت کو جواب دہ بھی بنا سکتے ہیں کیونکہ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار منتخب نمائندوں کی عوام کے مفادات کی موثر نمائندگی کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ انہیں ان کے وعدوں اور اقدامات کے لئے جوابدہ بنا کر ، شہری اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ان کی آواز سنی جائے اور ان کے خدشات کو دور کیا جائے۔
جموں کشمیر میں اس وقت اسمبلی کا بجٹ اجلاس جاری ہے جس میں جہاں مختلف محکموں کے مطالبات زر ہر بحث ہو رہی ہے وہیں عوامی مسائل کو بھی اجاگر کیا جارہا ہے ۔
بہ حیثیت اپوزیشن ‘ بی جے پی ‘پی ڈی پی یا دیگر جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو جواب دہ بنائے ‘ اس سے پر ان مسائل کو حل کرنے کیلئے دباؤ ڈالے ‘ جن مسائل کو لوگوں کو سامنا کرنا پڑر ہا ہے ۔
جموں کشمیر میں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ایک ایسی جگہ ‘ جس کے محدود مالی وسائی ہیں ‘ جہاں بیشتر پڑھے لکھے نوجوانوں کی نظریں روز گار کے حصول کیلئے سرکاری ملازمتوں پر ہی مرتکز رہتی ہیں ‘ مسائل کا حجم کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلاجارہا ہے ۔
جاری بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتیں عوامی مسائل کی نشاندہی کررہی ہیں لیکن اگر مقصد عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ان پر سیاست کرکے اپنے ووٹ بینک کی خوشنودی حاصل کرنا ہے تو پھر اس سے عام لوگوں کا کوئی بھلا ہو نے والا نہیںہے ۔
بی جے پی نے منگل کو جموںکشمیر کے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی مستقلی کو لے کر عمرعبداللہ کی سرکار کو گھیر نے کی کوشش کرتے ہوئے اسمبلی سے واک آؤٹ کیا ۔اپوزیشن اراکین اسمبلی نے ایوان میں مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو مستقل کرنے کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی ہے اور ان کے لئے بجٹ میں بھی کوئی اہتمام نہیں ہے۔
اس پر وزیر اعلیٰ‘ عمرعبداللہ کاکہنا تھا کہ حکومت نے پہلے ہی یومیہ اجرت کے معاملے پر ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور چھ ماہ کا وقت مانگا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے چیف سکریٹری اور کمیٹی میں ان کے افسران کی ٹیم پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ کوئی ٹھوس حل نکالیں گے۔
وزیر اعلیٰ نے بی جے پی کے شیام لال شرما ‘ جو ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۴ تک عمرعبداللہ کی حکومت میں پی ایچ ای وزیر تھے ‘ کو مورد الزام ٹھہراتے ہو ئے ان سے پوچھا کہ انہوں نے متعلقہ محکمے کا وزیر ہونے کے ناطے پی ایچ ای کے ڈیلی ویجروں کی مستقلی کیلئے کیا کام کیا تھا۔
بی جے پی البتہ وزیر اعلیٰ کے جواب سے متفق نہیں ہو ئی اور اس نے ایوان سے واک آؤٹ کیا ۔ لیکن کیا واک آؤٹ حل ہے ؟کیا واک آؤٹ سے عوامی مسائل حل ہو سکتے ہیں یا یہ محض ایک سیاسی حربہ ہے ۔
۲۰۱۴ سے ۲۰۲۴ تک کے ۱۰ برسوں میں بی جے پی کسی نہ کسی طرح جموںکشمیر پر حکومت کرتی آئی ہے‘اقتدار میں تھی ۔ پہلے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کرکے اور پھر جون ۲۰۱۸ سے گورنر راج کے توسط سے اس نے جموں کشمیر کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے رکھی تھی ۔
بی جے پی کو حق ہے کہ وہ عمرعبداللہ سے جواب مانگے ‘ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے گزشتہ پانچ ساڈھے پانچ مہینوں میں ڈیلی ویجروں کی مستقلی کیلئے کیا کیا ‘ لیکن یہ پوچھنے سے پہلے بی جے پی جموں کشمیر کے لوگوں کو یہ بتائے کہ اس نے گزشتہ دس برسوں میں یومیہ اجرات پر کام کرنے والے کم و بیش ۶۰ ہزار ملازمین کی مستقلی کیلئے کیا کیا؟
ایسا نہ نہیں تھا کہ گزشتہ ۱۰ برسوں کے دوران یومیہ اجرات پر کام کرنے والوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا ‘ یہ بھی نہیں کہ ان دس برسوں کے دوران جموں کشمیر کے ڈیلی ویجر اپنی مستقلی کے مطالبے سے دستبردار ہو ئے تھے اور اب منتخبہ عوامی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد انہوں نے اس مطالنے کو بحال کردیا ۔
ڈیلی ویجر ‘ چاہیں ان کا تعلق کسی بھی محکمے سے ہو ‘وہ مستقلی کے مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہو ئے ‘ لیکن بی جے پی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے دستبردار ہو ئی اور ان دس برسوں میںاس نے مستقلی کے حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی ۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمرعبداللہ کی حکومت ڈیلی ویجروں کے مسائل اور ان کی مستقلی کے حوالے سے کسی طرح کی بے اعتنائی برتے ۔اس بات سے قطع نظر کہ بی بے پی نے گزشتہ دس برسوں سے اس مسئلہ کے حوالے سے کچھ نہیں کیا‘ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ کو سنجیدہ لیتے ہو ئے اس بات کو یقینی بنائے کہ نہ صرف چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی ۶ ماہ کے مقررہ وقت میں رپورٹ کی صورت میں اپنی سفارشات پیش کرے بلکہ ان سفارشات کو عملہ جامہ پہنانے کی سمت میں بھی ٹھوس اقدامات کرے ۔
یقینا عمر عبداللہ حکومت کیلئے ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ ایک چیلنج ہے جسے انہیں قبول کرنا ہو گا کیونکہ جموںکشمیر کے لوگوں نے انہیں اپنے مسائل ‘ چاہے ان کی نوعیت کچھ بھی ہو ‘ کو حل کرنے کیلئے بھاری منڈیٹ کی صورت میں ایک ذمہ داری سونپ دی ہے اور وزیر اعلی کو یہ ذمہ داری بڑی ذمہ داری سے پوری کرنی ہو گی ۔